آیت 18
 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ لۡتَنۡظُرۡ نَفۡسٌ مَّا قَدَّمَتۡ لِغَدٍ ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۸﴾

۱۸۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل (روز قیامت) کے لیے کیا بھیجا ہے اور اللہ سے ڈرو، جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ یقینا اس سے خوب باخبر ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ: اتَّقُوا پرہیز کرو۔ بچاؤ کرو اللہ سے یعنی اللہ کے عدل سے۔ لا نخاف الا عدلہ۔۔۔۔ (بحار ۹۱: ۱۰۷۔ امیر المومنین (ع) سے مروی دعا) ہم صرف اللہ کے عدل سے ڈرتے ہیں۔ جیسا کہ ہر مجرم عدل و انصاف سے ڈرتا ہے۔ ورنہ اللہ خود ارحم الراحمین ہے لیکن اللہ کے عدل کا تقاضا یہ ہے کہ نیک اور برا برابر نہ ہو لہٰذا اللہ کے عدل سے ڈرنے کا حکم ہے۔ اللہ کے عذاب سے ڈرو۔ عذاب بھی عدل کا ایک تقاضا ہے۔

۲۔ وَ لۡتَنۡظُرۡ نَفۡسٌ مَّا قَدَّمَتۡ لِغَدٍ: ہر نفس، ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے روز قیامت کے لیے کیا آگے بھیجا ہے۔ وَ لۡتَنۡظُرۡ اپنے اعمال، اپنی ہر جنبش پر نظر رکھنی چاہے۔ ہر وقت اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔ تقویٰ کے بعد محاسبہ نفس کا مرحلہ آتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں محاسبہ، تقویٰ کا لازمہ ہے۔ جب انسان آگاہ اور ہوشیار ہوتا ہے اور خطرات سے اپنے آپ کو بچانا چاہتا ہے تو اس کا لازمہ یہ ہو گا کہ ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھائے گا۔

۳۔ لِغَدٍ: قیامت کو غد کل سے تعبیر فرمایا کہ قیامت ایسی ہے جیسے آج کے بعد کل ہے۔ یہ بات سب کے لیے واضح ہے کہ زمانے میں ٹھہراؤ نہیں ہے۔ آگے کل ہر صورت میں آنے ہی والا ہے۔ اسی طرح قیامت ہے کہ جس نے ہر صورت میں آنا ہے۔ جس طرح یہ نہیں ہو سکتا آج کے بعد کل نہ آئے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں قیامت نہ آئے۔

۴۔ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ: دوبارہ تقویٰ کا حکم تاکید کے لیے ہے چونکہ تقویٰ کو انسان کی سرنوشت و تقدیر میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ بعض کہتے ہیں یہ تقویٰ مقام محاسبہ سے مربوط ہے کہ کیا عمل اخلاص کے ساتھ صادر ہوا ہے؟ جب کہ شروع میں جس تقویٰ کا حکم دیا وہ اعمال کی بجا آوری سے متعلق ہے۔

اہم نکات

۱۔ فکر فردا ہر عاقل کا شیوہ ہے۔

۲۔ خطرات سے بچاؤ کا اہتمام عقلی تقاضا ہے۔


آیت 18