رِّزۡقًا لِّلۡعِبَادِ ۙ وَ اَحۡیَیۡنَا بِہٖ بَلۡدَۃً مَّیۡتًا ؕ کَذٰلِکَ الۡخُرُوۡجُ﴿۱۱﴾

۱۱۔ (یہ) بندوں کی روزی کے لیے ہے اور ہم نے اسی سے مردہ زمین کو زندہ کیا، (مردوں کا قبروں سے) نکلنا بھی اسی طرح ہو گا۔

کَذَّبَتۡ قَبۡلَہُمۡ قَوۡمُ نُوۡحٍ وَّ اَصۡحٰبُ الرَّسِّ وَ ثَمُوۡدُ ﴿ۙ۱۲﴾

۱۲۔ ان سے پہلے نوح کی قوم اور اصحاب الرس اور ثمود نے تکذیب کی ہے۔

وَ عَادٌ وَّ فِرۡعَوۡنُ وَ اِخۡوَانُ لُوۡطٍ ﴿ۙ۱۳﴾

۱۳۔ اور عاد اور فرعون اور برادران لوط نے بھی۔

وَّ اَصۡحٰبُ الۡاَیۡکَۃِ وَ قَوۡمُ تُبَّعٍ ؕ کُلٌّ کَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِیۡدِ﴿۱۴﴾

۱۴۔ اور ایکہ والے اور تبع کی قوم نے بھی، سب نے رسولوں کو جھٹلایا تو میرا عذاب (ان پر) لازم ہو گیا۔

اَفَعَیِیۡنَا بِالۡخَلۡقِ الۡاَوَّلِ ؕ بَلۡ ہُمۡ فِیۡ لَبۡسٍ مِّنۡ خَلۡقٍ جَدِیۡدٍ﴿٪۱۵﴾

۱۵۔ کیا ہم پہلی بار کی تخلیق سے عاجز آ گئے تھے؟ بلکہ یہ لوگ نئی تخلیق کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں۔

15۔ جس ذات نے اپنی قدرت کاملہ سے اس کائنات کو پیدا کیا، کیا وہ اس قسم کی ایک اور کائنات کو پیدا نہیں کر سکتی؟ کیا وہ اپنی بنائی ہوئی چیز کو توڑ کر دوبارہ نہیں بنا سکتی؟

وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ وَ نَعۡلَمُ مَا تُوَسۡوِسُ بِہٖ نَفۡسُہٗ ۚۖ وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ﴿۱۶﴾

۱۶۔ اور بتحقیق انسان کو ہم نے پیدا کیا ہے اور ہم ان وسوسوں کو جانتے ہیں جو اس کے نفس کے اندر اٹھتے ہیں کہ ہم رگ گردن سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔

16۔ قیامت کے منکروں کے لیے ایک لمحہ فکریہ: تم انکار قیامت کر کے حساب و کتاب سے بے فکر رہتے ہو۔ تمہارے اعمال و اقوال کے علاوہ ہم تمہارے دل میں اٹھنے والے وسوسوں تک کو جانتے ہیں۔ ہم تمہاری رگ گردن سے بھی زیادہ نزدیک ہیں۔ یہ ایک محسوس تشبیہ ہے، اس رگ کے ساتھ جس پر انسانی زندگی کا دار و مدار ہے۔ ورنہ اسی رگ گردن میں دوڑنے والے خون کو چلانے والا بھی اللہ ہی ہے۔

اِذۡ یَتَلَقَّی الۡمُتَلَقِّیٰنِ عَنِ الۡیَمِیۡنِ وَ عَنِ الشِّمَالِ قَعِیۡدٌ﴿۱۷﴾

۱۷۔ (انہیں وہ وقت یاد دلا دیں) جس وقت (اعمال کو) وصول کرنے والے دو (فرشتے) اس کی دائیں اور بائیں طرف بیٹھے وصول کرتے رہتے ہیں۔

17۔ التلقی۔ الاخذ ۔ وصول کرنا۔ دو فرشتے انسان کے دائیں اور بائیں جانب ہوتے ہیں جو اس سے صادر ہونے والے تمام اعمال و حرکات کو ثبت اور ضبط کرتے ہیں۔ ان کے پیچھے خود اللہ تعالیٰ کا براہ راست احاطۂ علمی بھی موجود ہے۔

مَا یَلۡفِظُ مِنۡ قَوۡلٍ اِلَّا لَدَیۡہِ رَقِیۡبٌ عَتِیۡدٌ﴿۱۸﴾

۱۸۔ (انسان) کوئی بات زبان سے نہیں نکالتا مگر یہ کہ اس کے پاس ایک نگران تیار ہوتا ہے۔

18۔ اللہ تعالیٰ رگ گردن سے بھی زیادہ انسان کے قریب ہے، لیکن اس کے باوجود انسان کے اقوال و اعمال کو درج اور ثبت کرنے کے لیے فرشتے بھی مامور ہیں۔ درج و ثبت کی نوعیت کا علم ہمیں حاصل نہیں ہے، تاہم انہی خاکی ذرات کے ذریعے اقوال و اشکال کو ثبت، محفوظ اور ریکارڈ کرنا انسان کے لیے ممکن ہونا شروع ہو گیا ہے۔ اللہ اور اس کے فرشتوں کے لیے اس بات میں کون سی دشواری پیش آ سکتی ہے؟

وَ جَآءَتۡ سَکۡرَۃُ الۡمَوۡتِ بِالۡحَقِّ ؕ ذٰلِکَ مَا کُنۡتَ مِنۡہُ تَحِیۡدُ﴿۱۹﴾

۱۹۔ اور موت کی غشی حقیقت بن کر آ گئی یہ وہی چیز ہے جس سے تو بھاگتا تھا۔

19۔ اگر بِالۡحَقِّ میں باء کو برائے تعدیہ لیا جائے تو آیت کا ترجمہ یہ ہو گا: سکرات موت اس حق کو لے کر آیا جس سے تو بھاگتا ہے۔ یعنی وہ حق بات جو انبیاء بیان کرتے رہے کہ موت کے بعد اخروی زندگی بھی ہے۔

وَ نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ ؕ ذٰلِکَ یَوۡمُ الۡوَعِیۡدِ﴿۲۰﴾

۲۰۔ اور صور میں پھونک ماری جائے گی، (تو کہا جائے گا) یہ وہی دن ہے جس کا خوف دلایا گیا تھا۔