وَ جَآءَتۡ کُلُّ نَفۡسٍ مَّعَہَا سَآئِقٌ وَّ شَہِیۡدٌ﴿۲۱﴾

۲۱۔ اور ہر شخص ایک ہانکنے والے (فرشتے) اور ایک گواہی دینے والے (فرشتے) کے ساتھ آئے گا۔

21۔ بروز قیامت جب انسان کو قبر سے اٹھایا جائے گا تو دو فرشتے اسے اپنی تحویل میں لے لیں گے۔ ایک کی ذمہ داری یہ ہو گی کہ اس کو عدالت کی طرف لے جائے۔ دوسرے کی ذمہ داری یہ ہو گی کہ گواہی دے یا نامہ اعمال پیش کرے۔

لَقَدۡ کُنۡتَ فِیۡ غَفۡلَۃٍ مِّنۡ ہٰذَا فَکَشَفۡنَا عَنۡکَ غِطَآءَکَ فَبَصَرُکَ الۡیَوۡمَ حَدِیۡدٌ﴿۲۲﴾

۲۲۔ بے شک تو اس چیز سے غافل تھا چنانچہ ہم نے تجھ سے تیرا پردہ ہٹا دیا ہے لہٰذا آج تیری نگاہ بہت تیز ہے۔

22۔ آج پردہ ہٹا دیا گیا، ورنہ تجھ میں سب کچھ دیکھنے کی دنیا میں بھی صلاحیت تھی مگر خواہشات، مفادات اور آرزوؤں کے تہ در تہ حجابوں نے تجھے اندھیرے میں رکھا تھا۔ جن کی بینائی پر پردہ نہیں پڑا ہوا تھا وہ حق کے جمال سے دنیا میں بھی محظوظ ہوتے رہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے: وَاَبْیَنُ مِمَّا تَرَی الْعُیُونُ ۔ (نہج البلاغۃ خطبہ 155) تیرا وجود ان چیزوں سے بھی زیادہ واضح ہے جن کو آنکھیں دیکھ لیتی ہیں۔

وَ قَالَ قَرِیۡنُہٗ ہٰذَا مَا لَدَیَّ عَتِیۡدٌ ﴿ؕ۲۳﴾

۲۳۔ اور اس کا ہم نشین (فرشتہ) کہے گا: جو میرے سپرد تھا وہ حاضر ہے۔

23۔ اکثریت کے نزدیک یہ ساتھی وہی فرشتہ ہے جو دنیا میں اس کے اعمال ثبت کرنے پر مامور تھا۔ یعنی اس کا نامہ اعمال جو میرے سپرد تھا، حاضر ہے۔ دیگر بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اس ہم نشین سے مراد شیطان ہے، چونکہ قرآن میں شیطان کو قَرِیۡنٌ ہم نشین کہا ہے: نُقَیِّضۡ لَہٗ شَیۡطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیۡنٌ (زخرف :36) اس صورت میں شیطان کہے گا: یہ وہ شخص ہے جو میرے سپرد رہا، آج یہ جہنم کے لیے حاضر ہے۔ اس پر اگلی آیت نمبر 27 شاہد ہے جس میں قَرِیۡنٌ سے مراد یقینا شیطان ہے۔

اَلۡقِیَا فِیۡ جَہَنَّمَ کُلَّ کَفَّارٍ عَنِیۡدٍ ﴿ۙ۲۴﴾

۲۴۔ (حکم ہو گا) تم دونوں (فرشتے) ہر عناد رکھنے والے کافر کو جہنم میں ڈال دو۔

مَّنَّاعٍ لِّلۡخَیۡرِ مُعۡتَدٍ مُّرِیۡبِۣ ﴿ۙ۲۵﴾

۲۵۔ خیر کو روکنے والے، حد سے تجاوز کرنے والے، شبہے میں رہنے والے کو۔

الَّذِیۡ جَعَلَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ فَاَلۡقِیٰہُ فِی الۡعَذَابِ الشَّدِیۡدِ ﴿۲۶﴾

۲۶۔ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو معبود بناتا تھا پس تم دونوں اسے سخت عذاب میں ڈال دو۔

قَالَ قَرِیۡنُہٗ رَبَّنَا مَاۤ اَطۡغَیۡتُہٗ وَ لٰکِنۡ کَانَ فِیۡ ضَلٰلٍۭ بَعِیۡدٍ﴿۲۷﴾

۲۷۔ اس کا ہم نشین (شیطان) کہے گا: ہمارے رب! میں نے اسے گمراہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ خود گمراہی میں دور تک چلا گیا تھا۔

27۔ شیطان کہے گا: میں نے اسے مجبور نہیں کیا، یہ خود میرے دام میں آنے کے لیے آمادگی رکھتا تھا سو وہ میرے دام میں پھنس گیا۔

قَالَ لَا تَخۡتَصِمُوۡا لَدَیَّ وَ قَدۡ قَدَّمۡتُ اِلَیۡکُمۡ بِالۡوَعِیۡدِ﴿۲۸﴾

۲۸۔ اللہ فرمائے گا: میرے سامنے جھگڑا نہ کرو اور میں نے تمہیں پہلے ہی برے انجام سے باخبر کر دیا تھا۔

مَا یُبَدَّلُ الۡقَوۡلُ لَدَیَّ وَ مَاۤ اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلۡعَبِیۡدِ﴿٪۲۹﴾

۲۹۔ میرے ہاں بات بدلتی نہیں ہے اور نہ ہی میں اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا ہوں۔۔

29۔ قَوۡلُ یعنی اٹل فیصلہ لَقَدۡ حَقَّ الۡقَوۡلُ عَلٰۤی اَکۡثَرِہِمۡ فَہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ (یٰسٓ:7) اللہ کا یہ اٹل فیصلہ ہے، جو لوگ کفر کی حالت میں مریں گے ان کے لیے نجات نہیں ہے۔

یَوۡمَ نَقُوۡلُ لِجَہَنَّمَ ہَلِ امۡتَلَاۡتِ وَ تَقُوۡلُ ہَلۡ مِنۡ مَّزِیۡدٍ﴿۳۰﴾

۳۰۔ جس دن ہم جہنم سے پوچھیں گے: کیا تو بھر گئی ہے؟ اور وہ کہے گی: کیا مزید ہے؟

30۔ یعنی جہنم کی طرف سے مزید جہنمیوں کا مطالبہ ہے۔ جہنم کے ساتھ اللہ کا وعدہ ہے کہ اس کو پر کیا جائے گا۔ جہنم کے ساتھ سوال و جواب ممکن ہے زبان حال کے طور پر ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ عالم آخرت میں ہر چیز شعور رکھتی ہو۔ اس کو عالم دنیا پر قیاس نہیں کرنا چاہیے۔