آیت 15
 

اَفَعَیِیۡنَا بِالۡخَلۡقِ الۡاَوَّلِ ؕ بَلۡ ہُمۡ فِیۡ لَبۡسٍ مِّنۡ خَلۡقٍ جَدِیۡدٍ﴿٪۱۵﴾

۱۵۔ کیا ہم پہلی بار کی تخلیق سے عاجز آ گئے تھے؟ بلکہ یہ لوگ نئی تخلیق کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اَفَعَیِیۡنَا بِالۡخَلۡقِ الۡاَوَّلِ: خدا کے وجود کا عقیدہ رکھنے اور خدا کو اس کائنات کا خالق ماننے والا یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوقات کو عدم سے وجود میں لایا ہے۔ خلق اول کا مطلب خلق ابداعی ہے کہ کسی سابقہ مثال، مواد اور عناصر کے بغیر ہر چیز کو عدم سے وجود میں لایا۔

۲۔ بَلۡ ہُمۡ فِیۡ لَبۡسٍ مِّنۡ خَلۡقٍ جَدِیۡدٍ: یہ منکرین نئی تخلیق کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں جب کہ جدید تخلیق اور اعادۂ حیات، فہم بشر کے مطابق ایجاد حیات سے زیادہ آسان ہے:

وَ ہُوَ الَّذِیۡ یَبۡدَؤُا الۡخَلۡقَ ثُمَّ یُعِیۡدُہٗ وَ ہُوَ اَہۡوَنُ عَلَیۡہِ۔۔۔۔۔ (۳۰ روم: ۲۷)

وہی خلقت کی ابتدا کرتا ہے۔ پھر وہی اس کا اعادہ کرتا ہے اور یہ اس کے لیے زیادہ آسان ہے۔

تخلیق کی دو قسمیں ہیں پہلی قسم یہ ہے کہ عدم سے وجود میں لایا جائے۔ اسے خلق ابداعی کہتے ہیں یہ صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہے:

بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ۔۔۔۔ (۲ بقرہ: ۱۱۷)

وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے۔

دوسری قسم کسی شے سے بنانے کو بھی تخلیق کہتے ہیں جیسے:

خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ۔۔۔۔۔ (۱۶ نحل: ۴)

اس نے انسان کو ایک بوند سے پیدا کیا۔

لہٰذا بعض قرآن پر قلم اٹھانے والوں کا یہ کہنا اشتباہ ہے کہ خلق جدید کہنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عدم سے خلق کرے گا۔ خلق اول کی طرح خلق جدید بھی عدم سے ہے۔ (تفسیر التحریر التنویر ذیل آیہ) جب کہ قرآن مجید نے خلق جدید کو اعادۂ تخلیق بھی کہا ہے:

ثُمَّ یُعِیۡدُہٗ وَ ہُوَ اَہۡوَنُ عَلَیۡہِ۔۔۔۔ (۳۰ روم: ۲۷)

پھر وہی اس کا اعادہ کرتا ہے اور یہ اس کے لیے زیادہ آسان ہے۔

البتہ اس خلق جدید کے بعد فنا نہیں ہے اور نظام بھی جدید ہو گا جو عالم دنیا سے مختلف ہو گا۔

اہم نکات

۱۔ جو ذات اپنی قدرت کاملہ سے یہ عظیم کائنات عدم سے وجود میں لائی ہے وہ اسے توڑ کر دوبارہ خلق جدید میں بنا سکتی ہے۔


آیت 15