آیت 16
 

وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ وَ نَعۡلَمُ مَا تُوَسۡوِسُ بِہٖ نَفۡسُہٗ ۚۖ وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ﴿۱۶﴾

۱۶۔ اور بتحقیق انسان کو ہم نے پیدا کیا ہے اور ہم ان وسوسوں کو جانتے ہیں جو اس کے نفس کے اندر اٹھتے ہیں کہ ہم رگ گردن سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ: اللہ تعالیٰ نے انسان خلق فرمانے کے بعد اسے اپنی حالت پر نہیں چھوڑا ہے بلکہ اس کی خلقت اور بقا دونوں اللہ تعالیٰ پر موقوف ہیں۔ لہٰذا ایسا ہو نہیں سکتا کہ اس کی بقا اور وجود کی کسی بات پر اللہ تعالیٰ کو براہ راست آگاہی نہ ہو۔ لہٰذا یہ انسان جو دل میں خطور کرتا ہے اللہ اس سے آگاہ ہے۔

۲۔ وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ: اللہ رگ گردن سے زیادہ انسان کے قریب ہے، جس رگ سے انسان کی حیات کی بقا مربوط ہے کیونکہ اسی سے جسم میں خون کی گردش ہوتی اور حیات کو استمرار ملتا ہے جو انسان کے اپنے وجود کے برابر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ انسان سے خود اس کے اپنے وجود سے زیادہ قریب ہے۔ یہ عام لوگوں کے لیے ایک تشبیہ ہے ورنہ اللہ تعالیٰ ہم سے کتنا قریب ہے، وصف و بیان میں نہیں آ سکتا۔

اہم نکات

۱۔ اللہ خود ہمارے وجود سے زیادہ ہم سے نزدیک ہے۔


آیت 16