آیات 20 - 21
 

وَ نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ ؕ ذٰلِکَ یَوۡمُ الۡوَعِیۡدِ﴿۲۰﴾

۲۰۔ اور صور میں پھونک ماری جائے گی، (تو کہا جائے گا) یہ وہی دن ہے جس کا خوف دلایا گیا تھا۔

وَ جَآءَتۡ کُلُّ نَفۡسٍ مَّعَہَا سَآئِقٌ وَّ شَہِیۡدٌ﴿۲۱﴾

۲۱۔ اور ہر شخص ایک ہانکنے والے (فرشتے) اور ایک گواہی دینے والے (فرشتے) کے ساتھ آئے گا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ: یہ دوسرا صور ہو گا جس سے تمام لوگ زندہ ہو جائیں گے۔ اس صور میں پھونکنے کے بعد میدان حشر میں ہر شخص کو اپنی ابدی قسمت کا فیصلہ سننا ہو گا۔

۲۔ ذٰلِکَ یَوۡمُ الۡوَعِیۡدِ: بالعیاں دکھایا جائے گا کہ یہ وہی دن ہے جس کا انبیاء علیہم السلام خوف دلاتے رہے۔

۳۔ وَ جَآءَتۡ کُلُّ نَفۡسٍ: بروز قیامت جب انسان کو قبر سے اٹھایا جائے گا تو دو فرشتے اسے اپنی تحویل میں لے لیں گے۔ ایک کی ذمہ داری ہو گی اسے عدالت کی طرف لے جائے۔ دوسرے کی ذمہ داری یہ ہو گی گواہی دے یا نامۂ اعمال پیش کرے۔

نہج البلاغۃ خطبہ ۸۵ میں آیا ہے:

سَائِقٌ یَسُوقُھَا اِلَی مَحْشَرِھَا وَ شَاھِدٌ یَشْھَدُ عَلَیْھَا بِعَمَلِھَا۔۔۔۔

ہنکانے والا اسے محشر تک ہنکا کر لے جائے گا اور گواہ اس کے عملوں کی گواہی دے گا۔

تقریباً یہی عبارت حضرت علی علیہ السلام سے کتاب اعلام الدین صفحہ ۲۴۸ پر بھی موجود ہے۔ کسی روایت میں اس بات کی طرف اشارہ نہیں ملتا کہ یہ وہی دو فرشتے ہیں جو انسان کی دائیں اور بائیں جانب موکل ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے:

الْغِنَی وَ الْفَقْرُ بَعْدَ الْعَرْضِ عَلَی اللہِ ۔

فقیری اور امیری کا فیصلہ اللہ کے سامنے پیش ہونے کے بعد ہو گا۔

فضائل: حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ اس آیت میں سَآئِقٌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور شَہِیۡدٌ علی بن ابی طالب (علیہ السلام) ہیں۔

اہم نکات

۱۔ قیامت کے دن انسان اپنے اعمال کی گرفت میں ہو گا۔


آیات 20 - 21