وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ حَتّٰی نَعۡلَمَ الۡمُجٰہِدِیۡنَ مِنۡکُمۡ وَ الصّٰبِرِیۡنَ ۙ وَ نَبۡلُوَا۠ اَخۡبَارَکُمۡ﴿۳۱﴾

۳۱۔ اور ہم تمہیں ضرور آزمائش میں ڈالیں گے یہاں تک کہ ہم تم میں سے جہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کی شناخت کر لیں اور تمہارے حالات جانچ لیں۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ صَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ شَآقُّوا الرَّسُوۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الۡہُدٰی ۙ لَنۡ یَّضُرُّوا اللّٰہَ شَیۡئًا ؕ وَ سَیُحۡبِطُ اَعۡمَالَہُمۡ﴿۳۲﴾

۳۲۔ یقینا جنہوں نے ان پر ہدایت ظاہر ہونے کے بعد کفر کیا اور (لوگوں کو) راہ خدا سے روکا اور رسول کی مخالفت کی وہ اللہ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے اور اللہ عنقریب ان کے اعمال حبط کر دے گا۔

32۔ جن اعمال کو کار خیر سمجھ کر انجام دیا ہو، ان کا بھی کوئی اجر نہیں ہو گا، نہ ہی ان کوششوں کا کوئی ثمر ملے گا جو وہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف کرتے رہے۔ یعنی وہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ لَا تُبۡطِلُوۡۤا اَعۡمَالَکُمۡ﴿۳۳﴾

۳۳۔ اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو۔

33۔ آیت کا اطلاق اگرچہ ہر اطاعت کو شامل ہے کہ رسول اللہ کسی شخص کو کوئی حکم دیں اور وہ نہ مانے تو اس کے اعمال حبط ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ سورہ الحجرات میں فرمایا: اے ایمان والو! اپنی آواز نبی کی آواز سے اونچی نہ کرو اور نبی کے ساتھ اونچی آواز میں بات نہ کرو، جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اونچی آواز میں بات کرتے ہو، کہیں تمہارے اعمال حبط ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔ تاہم اس جگہ جہاد کے بارے میں یہ حکم ہے کہ اگر اللہ اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حکم جہاد نہ مانو گے تو دیگر اعمال ضائع ہو جائیں گے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ صَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ثُمَّ مَاتُوۡا وَ ہُمۡ کُفَّارٌ فَلَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَہُمۡ﴿۳۴﴾

۳۴۔ یقینا جنہوں نے کفر کیا اور راہ خدا سے روکا پھر کفر کی حالت میں مر گئے تو اللہ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا۔

فَلَا تَہِنُوۡا وَ تَدۡعُوۡۤا اِلَی السَّلۡمِ ٭ۖ وَ اَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ ٭ۖ وَ اللّٰہُ مَعَکُمۡ وَ لَنۡ یَّتِرَکُمۡ اَعۡمَالَکُمۡ﴿۳۵﴾

۳۵۔ تم ہمت نہ ہارو اور نہ ہی صلح کی دعوت دو جب کہ تم ہی غالب ہو اور اللہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ ہرگز تمہارے اعمال ضائع نہیں کرے گا۔

35۔ صلح کا حکم فریق مخالف کے عزائم سے مربوط ہے۔ فریق مخالف اگر واقعی صلح کے لیے آمادہ ہے تو صلح قبول کرنے کا حکم ہے: وَ اِنۡ جَنَحُوۡا لِلسَّلۡمِ فَاجۡنَحۡ لَہَا ۔ اگر وہ صلح پر مائل ہو جائیں تو آپ بھی صلح کر لیں اور اگر فریق مخالف صلح کی آڑ میں مسلمانوں کو دھوکہ دینا چاہتا ہے تو اس صلح کو ٹھکرا دینا چاہیے: وَ اِنۡ یُّرِیۡدُوۡۤا اَنۡ یَّخۡدَعُوۡکَ فَاِنَّ حَسۡبَکَ اللّٰہُ (انفال: 61۔62) اگر وہ آپ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں تو اللہ آپ کی مدد کے لیے کافی ہے۔

اِنَّمَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ ؕ وَ اِنۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ تَتَّقُوۡا یُؤۡتِکُمۡ اُجُوۡرَکُمۡ وَ لَا یَسۡـَٔلۡکُمۡ اَمۡوَالَکُمۡ﴿۳۶﴾

۳۶۔ بے شک دنیاوی زندگی تو بس کھیل اور فضول ہے اور اگر تم ایمان لے آؤ اور تقویٰ اختیار کرو تو اللہ تمہارا اجر تمہیں دے گا اور تم سے تمہارا مال طلب نہیں کرے گا۔

اِنۡ یَّسۡـَٔلۡکُمُوۡہَا فَیُحۡفِکُمۡ تَبۡخَلُوۡا وَ یُخۡرِجۡ اَضۡغَانَکُمۡ﴿۳۷﴾

۳۷۔ اگر (تمہارے رسول) تم لوگوں سے مال کا مطالبہ کریں اور پھر تم سے اصرار کریں تو تم بخل کرنے لگو گے اور وہ (بخل) تمہارے کینے نکال باہر کرے گا۔

37۔ سابقہ آیت میں فرمایا: تم سے تمہارا مال طلب نہیں کرے گا۔ یعنی سارا مال طلب نہیں کرے گا یا اصرار سے طلب نہیں کرے گا۔ اس آیت میں فرمایا: اگر تم سے سارا مال طلب کیا جائے یا اصرار سے طلب کیا جائے تو تم نہ صرف بخل کرو گے بلکہ مال طلب کرنے پر تمہارے ضمیر فاش ہو جائیں گے۔

ہٰۤاَنۡتُمۡ ہٰۤؤُلَآءِ تُدۡعَوۡنَ لِتُنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۚ فَمِنۡکُمۡ مَّنۡ یَّبۡخَلُ ۚ وَ مَنۡ یَّبۡخَلۡ فَاِنَّمَا یَبۡخَلُ عَنۡ نَّفۡسِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ الۡغَنِیُّ وَ اَنۡتُمُ الۡفُقَرَآءُ ۚ وَ اِنۡ تَتَوَلَّوۡا یَسۡتَبۡدِلۡ قَوۡمًا غَیۡرَکُمۡ ۙ ثُمَّ لَا یَکُوۡنُوۡۤا اَمۡثَالَکُمۡ﴿٪۳۸﴾

۳۸۔ آگاہ رہو! تم ہی وہ لوگ ہو جنہیں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی دعوت دی جاتی ہے تو تم میں سے بعض بخل کرتے ہیں اور جو بخل کرتا ہے تو وہ خود اپنے آپ سے بخل کرتا ہے اور اللہ تو بے نیاز ہے اور محتاج تم ہی ہو اور اگر تم نے منہ پھیر لیا تو اللہ تمہارے بدلے اور لوگوں کو لے آئے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔

38۔ نہ سارا مال نہ اصرار، صرف انفاق کی ترغیب پر بھی بخل کرتے ہو۔