آیت 32
 

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ صَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ شَآقُّوا الرَّسُوۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الۡہُدٰی ۙ لَنۡ یَّضُرُّوا اللّٰہَ شَیۡئًا ؕ وَ سَیُحۡبِطُ اَعۡمَالَہُمۡ﴿۳۲﴾

۳۲۔ یقینا جنہوں نے ان پر ہدایت ظاہر ہونے کے بعد کفر کیا اور (لوگوں کو) راہ خدا سے روکا اور رسول کی مخالفت کی وہ اللہ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے اور اللہ عنقریب ان کے اعمال حبط کر دے گا۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا: کفر سے مراد ممکن ہے کفر ظاہری ہو۔ اس صورت میں ان میں مشرکین اور یہود و نصاریٰ مراد ہو سکتے ہیں اور ممکن ہے کفر سے مراد منافقین کا چھپایا ہوا کفر ہو۔ اس صورت میں اس آیت سے مراد منافقین ہی ہو سکتے ہیں چونکہ سلسلۂ کلام منافقین کے بارے میں جاری ہے۔

۲۔ وَ صَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ: مشرکین، یہود اور منافقین سب کی یہ کوشش رہی ہے کہ اللہ تک رسائی کا راستہ، جس کا تعین اسلام کرتا ہے، بند کیا جائے تاکہ کوئی بشر اس راستے پر چلنے نہ پائے۔

۳۔ وَ شَآقُّوا الرَّسُوۡلَ: اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت بھی ان کا شیوہ ہے۔ آیت کا یہ جملہ قرینہ بن سکتا ہے کہ یہ آیت منافقین کے بارے میں ہے۔ چونکہ مشرکین اور یہود کے لیے لفظ کَفَرُوۡا وَ صَدُّوۡا میں مخالفت رسول ؐ شامل ہے لیکن منافقین کے نفاق کی علامات بیشتر مخالفت رسولؐ میں نمایاں ہوتی رہی ہیں۔

۴۔ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الۡہُدٰی: ان سب کے لیے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ ہدایت کا یہی راستہ ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر نشست و برخاست سے روزانہ حقائق کی روشنیاں پھوٹتی رہتی تھیں۔

۵۔ وَ سَیُحۡبِطُ اَعۡمَالَہُمۡ: اَعۡمَالَہُمۡ سے مراد ان کی سازشیں ہیں جو وہ اسلام کے خلاف کرتے رہے۔ وہ سب ناکام ہو جائیں گی۔ اس میں کفر و نفاق کی شکست اور اسلام کی فتح کی نوید ہے۔

اہم نکات

۱۔ حق واضح ہونے کے بعد حق کی مخالفت کرنے والے ہمیشہ خوار ہوتے ہیں۔


آیت 32