آیت 31
 

وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ حَتّٰی نَعۡلَمَ الۡمُجٰہِدِیۡنَ مِنۡکُمۡ وَ الصّٰبِرِیۡنَ ۙ وَ نَبۡلُوَا۠ اَخۡبَارَکُمۡ﴿۳۱﴾

۳۱۔ اور ہم تمہیں ضرور آزمائش میں ڈالیں گے یہاں تک کہ ہم تم میں سے جہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کی شناخت کر لیں اور تمہارے حالات جانچ لیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ: تمہارے زبانی اظہار پر اکتفا نہیں کیا جائے گا بلکہ تمہیں جہاد و قتال کا حکم دے کر آزما لیا جائے گا:

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ ( ۲۹ عنکبوت: ۲)

کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اتنا کہنے سے چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور وہ آزمائے نہیں جائیں گے۔

۲۔ حَتّٰی نَعۡلَمَ الۡمُجٰہِدِیۡنَ مِنۡکُمۡ: تاکہ علم الٰہی مرحلہ عینیت اور مرحلۂ عمل میں آ جائے کہ تم میں سے مجاہدین کون ہیں۔ چونکہ عمل کے مرحلے میں آنے کے بعد انسان مجاہد بنتا ہے، قبل از عمل صرف علم خدا سے مجاہد نہیں بن جاتا۔ میدان جہاد میں بھیجے جانے کے بعد عملی میدان میں تمہارے جہاد اور صبر کا مظاہرہ ہوتا ہے۔

۳۔ وَ نَبۡلُوَا۠ اَخۡبَارَکُمۡ: اور یہ آزمائش بھی ہو گی تمہارے باطن کی کیا خبریں ہیں۔ امتحان سے تمہارا اعمال تمہارے باطن کی خبریں فاش کریں گے کہ اگر تمہارا باطن اچھا ہے تو اچھے اعمال بجا لائے جائیں گے، باطن برا ہے تو برے اعمال سامنے آ جائیں گے۔

اہم نکات

۱۔ انسان کا کردار اس کے ایمان کا آئینہ ہے۔


آیت 31