صلح کب کی جائے


فَلَا تَہِنُوۡا وَ تَدۡعُوۡۤا اِلَی السَّلۡمِ ٭ۖ وَ اَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ ٭ۖ وَ اللّٰہُ مَعَکُمۡ وَ لَنۡ یَّتِرَکُمۡ اَعۡمَالَکُمۡ﴿۳۵﴾

۳۵۔ تم ہمت نہ ہارو اور نہ ہی صلح کی دعوت دو جب کہ تم ہی غالب ہو اور اللہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ ہرگز تمہارے اعمال ضائع نہیں کرے گا۔

35۔ صلح کا حکم فریق مخالف کے عزائم سے مربوط ہے۔ فریق مخالف اگر واقعی صلح کے لیے آمادہ ہے تو صلح قبول کرنے کا حکم ہے: وَ اِنۡ جَنَحُوۡا لِلسَّلۡمِ فَاجۡنَحۡ لَہَا ۔ اگر وہ صلح پر مائل ہو جائیں تو آپ بھی صلح کر لیں اور اگر فریق مخالف صلح کی آڑ میں مسلمانوں کو دھوکہ دینا چاہتا ہے تو اس صلح کو ٹھکرا دینا چاہیے: وَ اِنۡ یُّرِیۡدُوۡۤا اَنۡ یَّخۡدَعُوۡکَ فَاِنَّ حَسۡبَکَ اللّٰہُ (انفال: 61۔62) اگر وہ آپ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں تو اللہ آپ کی مدد کے لیے کافی ہے۔