آیت 36
 

اِنَّمَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ ؕ وَ اِنۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ تَتَّقُوۡا یُؤۡتِکُمۡ اُجُوۡرَکُمۡ وَ لَا یَسۡـَٔلۡکُمۡ اَمۡوَالَکُمۡ﴿۳۶﴾

۳۶۔ بے شک دنیاوی زندگی تو بس کھیل اور فضول ہے اور اگر تم ایمان لے آؤ اور تقویٰ اختیار کرو تو اللہ تمہارا اجر تمہیں دے گا اور تم سے تمہارا مال طلب نہیں کرے گا۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّمَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ: دنیا کی وہ زندگی جو دین کے مقابلے میں اختیار کی جاتی ہے ایک کھیل ہے۔ لَعِب کھیل اس کام کو کہتے ہیں جس میں مصروف شخص باقی خواہشات کی طرح اس وقت تک لطف اندوز ہوتا ہے جب تک وہ اس میں مصروف ہے۔ اس کے بعد اس پر ایسے کوئی مثبت اثرات مترتب نہیں ہوتے جو خود کھلاڑی اور معاشرے کے لیے فائدہ مند ہوں۔

لَہۡوٌ یعنی اہم چیز سے روگردانی کا موجب بننے والا عمل ہے۔ لَہۡو اس غیر اہم کام کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے اہم کام سے غافل ہو جائے۔ یعنی تم جہاد چھوڑ کر دنیا میں مشغول ہوتے ہو تو یہ ایک کھیل اور لہو ہے۔

۲۔ وَ اِنۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ تَتَّقُوۡا: اس کے مقابلے میں اگر تم ایمان اور تقویٰ کی بنیاد پر زندگی گزارتے تو اس کے دائمی اثرات ہیں۔

۳۔ یُؤۡتِکُمۡ اُجُوۡرَکُمۡ: وہ دائمی اثرات، اجر و ثواب ہیں جو دائمی، ابدی، تمہاری ہمیشہ رہنے والی زندگی کے لیے ہیں۔

۴۔ وَ لَا یَسۡـَٔلۡکُمۡ اَمۡوَالَکُمۡ: ایمان اور تقویٰ کی طرف آنے میں اس بات کا بھی کوئی خوف نہیں ہے کہ تم سے مالی فائدہ اٹھایا جائے اور تمہیں مالی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ایمان اور تقویٰ اختیار کرنے کی ہدایت پر کوئی مالی اجرت نہیں مانگی جاتی:

وَ مَاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ اَجۡرٍ ۚ اِنۡ اَجۡرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ (۲۶ شعراء : ۱۰۹)

اور اس کام پر میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا میرا اجر تو صرف رب العالمین پر ہے۔


آیت 36