آیت 35
 

فَلَا تَہِنُوۡا وَ تَدۡعُوۡۤا اِلَی السَّلۡمِ ٭ۖ وَ اَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ ٭ۖ وَ اللّٰہُ مَعَکُمۡ وَ لَنۡ یَّتِرَکُمۡ اَعۡمَالَکُمۡ﴿۳۵﴾

۳۵۔ تم ہمت نہ ہارو اور نہ ہی صلح کی دعوت دو جب کہ تم ہی غالب ہو اور اللہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ ہرگز تمہارے اعمال ضائع نہیں کرے گا۔

تفسیر آیات

۱۔ فَلَا تَہِنُوۡا: تم ہمت نہ ہارو۔ مسلمانوں کی صفوں میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو جہاد کو ایک عذاب سمجھتے تھے۔ جیسا کہ اس سورۃ المبارکہ کی آیت ۲۰ میں ان لوگوں کا ذکر آیا: جب محکم بیان والی سورت نازل ہو اور اس میں قتال کا ذکر آ جائے تو آپ دیکھتے ہیں جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے موت کی بیہوشی طاری ہو گئی ہو۔

۲۔ وَ تَدۡعُوۡۤا اِلَی السَّلۡمِ: اورہمت ہارنے کی وجہ سے صلح کی دعوت نہ دو چونکہ صلح کا حکم فریق مخالف کے عزائم سے مربوط ہے۔ فریق مخالف اگر واقعی صلح کے لیے آمادہ ہے تو صلح قبول کرنے کا حکم ہے:

وَ اِنۡ جَنَحُوۡا لِلسَّلۡمِ فَاجۡنَحۡ لَہَا۔۔۔ ( ۸ انفال: ۶۱)

اور (اے رسول) اگر وہ صلح و آشتی کی طرف مائل ہو جائیں تو آپ بھی مائل ہو جائیے۔

اور اگر فریق مخالف صلح کی آڑ میں مسلمانوں کو دھوکہ دینا چاہتا ہے تو اس صلح کو ٹھکرا دینا چاہیے:

وَ اِنۡ یُّرِیۡدُوۡۤا اَنۡ یَّخۡدَعُوۡکَ فَاِنَّ حَسۡبَکَ اللّٰہُ۔۔۔۔ (۸ انفال: ۶۲)

اور اگر وہ آپ کو دھوکہ دینا چاہیں تو آپ کے لیے یقینا اللہ کافی ہے۔

۳۔ وَ اَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ: تم ہی غالب اور سربلند ہو۔ تم عقیدہ و ایمان کے اعتبار سے، تصور حیات کے اعتبار سے، قوت و طاقت کے اعتبار سے، منطق اور دلیل کے اعتبار سے، ہر اعتبار سے تم سربلند ہو۔

۴۔ وَ اللّٰہُ مَعَکُمۡ: چونکہ اللہ کی نصرت تمہارے ساتھ ہے۔ اللہ کی نصرت پر ایمان رکھنے کی صورت میں سربلندی، فتح و نصرت یقینی ہے۔

۵۔ وَ لَنۡ یَّتِرَکُمۡ اَعۡمَالَکُمۡ: اور راہ جہاد میں تمہاری کوششیں بار آور اور نتیجہ خیز ثابت ہوں گی اور کوئی قدم رائیگاں نہیں جائے گا۔ اس آیت میں کامیابی کی تین تعبیروں میں خوشخبری ہے: وَ اَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ ٭ۖ وَ اللّٰہُ مَعَکُمۡ وَ لَنۡ یَّتِرَکُمۡ اَعۡمَالَکُمۡ۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کے وعدے پر ایمان رکھنے والے مجاہد ہمیشہ فاتح رہے ہیں۔


آیت 35