آیت 14
 

قُلۡ لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا یَغۡفِرُوۡا لِلَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ اَیَّامَ اللّٰہِ لِیَجۡزِیَ قَوۡمًۢا بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔ ایمان والوں سے کہدیجئے: جو لوگ ایام اللہ پر عقیدہ نہیں رکھتے ان سے درگزر کریں تاکہ اللہ خود اس قوم کو اس کے کیے کا بدلہ دے۔

تفسیر آیات

۱۔ قُلۡ لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا: یہ سورہ مکی ہے اور مکہ میں مشرکین مسلمانوں سے تمسخر اور آئے دن مسلمانوں کی اہانت کرتے تھے۔ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بھی اہانت کرتے اور اللہ کی آیات کا مذاق اڑاتے تھے جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے تھے۔

اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم ہوا کہ مومنین سے کہدیں کہ وہ مشرکین کی ان اہانتوں سے درگزر کریں، ان کے ساتھ نہ الجھیں۔ ان کے تمسخرات کا جواب دینے کی کوشش نہ کریں بلکہ انہیں ان کے اپنے اعمال کے حوالہ کریں۔پھر ان کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں۔

۲۔ لَا یَرۡجُوۡنَ اَیَّامَ اللّٰہِ: اَیَّامَ اللّٰہِ سے مراد وہ دن ہیں جن میں کفار اپنے اعمال کی سزا کا سامنا کریں گے۔ اُن دنوں میں صرف اللہ کافیصلہ نافذ ہو گا۔ اسی لیے ان دنوں کو اَیَّامَ اللّٰہِ کہا ہے چونکہ باقی دنوں میں مجرم اور سرکش کو بھی اپنی سرکشی کی مہلت دی جاتی ہے لیکن اَیَّامَ اللّٰہِ میں صرف اللہ کا حکم چلے گا۔ یعنی ان لوگوں سے درگزر کریں جو اپنی عاقبت بد اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے۔ یہ آیت، اس آیت کی طرح ہے جس میں فرمایا:

وَ ذَرۡنِیۡ وَ الۡمُکَذِّبِیۡنَ اُولِی النَّعۡمَۃِ وَ مَہِّلۡہُمۡ قَلِیۡلًا﴿﴾اِنَّ لَدَیۡنَاۤ اَنۡکَالًا وَّ جَحِیۡمًا (۷۳ مزمل: ۱۱ ۔ ۱۲)

ان جھٹلانے والوں اور نعمتوں پر ناز کرنے والوں کو مجھ پر چھوڑ دیجیے اور انہیں تھوڑی مہلت دے دیجیے۔ یقینا ہمارے پاس (ان کے لیے) بیڑیاں ہیں اور سلگتی آگ ہے۔

واضح رہے اس آیت کا تعلق جہاد و عدم جہاد سے نہیں ہے کہ آیہ جہاد کے ذریعہ اس آیت کو منسوخ سمجھا جائے بلکہ اس آیت کا تعلق کافروں کی طرف سے ہونے والی اہانتوں میں نہ الجھنے سے ہے۔


آیت 14