آیت 18
 

ثُمَّ جَعَلۡنٰکَ عَلٰی شَرِیۡعَۃٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ فَاتَّبِعۡہَا وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۸﴾

۱۸۔ پھر ہم نے آپ کو امر (دین) کے ایک آئین پر قائم کیا، لہٰذا آپ اسی پر چلتے رہیں اور نادانوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلیں۔

تفسیر آیات

۱۔ ثُمَّ: بنی اسرائیل کو مذکورہ تمام عنایتوں سے نوازنے کے باوجود ان لوگوں نے ان عنایتوں کا حق ادا کرنے کی جگہ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف سرکشی شروع کر دی تو وہ اس بار امانت اور ان عنایتوں کے اہل نہیں رہے۔ اس لیے ان کے بعد ہم آپ کی طرف متوجہ ہیں۔

۲۔ جَعَلۡنٰکَ عَلٰی شَرِیۡعَۃٍ: آپ کو ہم نے ایک آئین کی ذمہ داری دی۔ جعل قرار دینا، حکم دینا کے معنوں میں ہے۔ آیت کا یہ مفہوم بنتا ہے: ہم نے آپ کو ایک آئین کا حکم دیا۔ ایک جامع نظام حیات دیا ہے۔

۳۔ مِّنَ الۡاَمۡرِ: مفسرین نے کہا ہے الۡاَمۡرِ سے مراد یہاں بھی دین ہے۔ لہٰذا اس آیت میں شریعت کو دین کی تشریح قرار دیا ہے۔ یعنی شریعۃ من الدین ۔ چنانچہ ہم نے سورہ روم آیت ۳۰ میں بیان کیا ہے کہ شریعت اور دین میں اجمال و تفصیل کا فرق ہے۔

۴۔ فَاتَّبِعۡہَا وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَ: پس آپ اس شریعت کی اتباع کریں اور اس شریعت کے نفاذ کے بارے میں علم نہ رکھنے والوں کی طرف سے آپ کو رکاوٹ درپیش ہوں گی چونکہ خواہشات کو صحیح سمت دینے کے لیے علم نہ ہو تو خواہشات کا درندہ بے قابو ہو جاتا ہے۔ مولائے متقیان علیہ السلام سے منقول ہے:

النَّاسُ اَعْدَاءُ مَا جَہِلُوا۔ ( نہج البلاغۃ کلمات قصار : ۴۳۸)

لوگ اس چیز کے دشمن ہوتے ہیں جسے وہ نہیں جانتے۔

روایت ہے امام محمد باقر علیہ السلام سے سوال ہوا: بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟ فرمایا:

اَنْ یَقُولُوا مَا یَعْلَمُونَ وَ یَقِفُوا عِنْدَ مَا لَا یَعْلَمُونَ۔ (الکافی۱: ۴۳)

جس چیز کا علم ہے اسے بیان کریں اور جس چیز کا علم نہیں وہاں رک جائیں۔


آیت 18