آیات 16 - 17
 

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ الۡکِتٰبَ وَ الۡحُکۡمَ وَ النُّبُوَّۃَ وَ رَزَقۡنٰہُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلۡنٰہُمۡ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۚ۱۶﴾

۱۶۔ اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب، حکمت اور نبوت دی اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزیں عطا کیں اور ہم نے انہیں اہل عالم پر فضیلت دی۔

وَ اٰتَیۡنٰہُمۡ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ ۚ فَمَا اخۡتَلَفُوۡۤا اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ ۙ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ؕ اِنَّ رَبَّکَ یَقۡضِیۡ بَیۡنَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ فِیۡمَا کَانُوۡا فِیۡہِ یَخۡتَلِفُوۡنَ﴿۱۷﴾

۱۷۔ اور ہم نے انہیں امر (دین) کے بارے میں واضح دلائل دیے تو انہوں نے اپنے پاس علم آ جانے کے بعد آپس کی ضد میں آ کر اختلاف کیا، آپ کا رب قیامت کے دن ان کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ فرمائے گا جن میں یہ لوگ اختلاف کرتے تھے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ الۡکِتٰبَ: توحید و ربوبیت پر فکر و تعقل کی دعوت دینے اور وجدانوں کو جھنجوڑنے کے بعد رسالت کے موضوع کی طرف رخ کلام ہو گیا چونکہ مشرکین ان دونوں کے منکر تھے۔ فرمایا: رسالت کوئی نئی چیز نہیں ہے جو پہلے انسانوں نے نہ دیکھی ہو۔ ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب، حکم اور نبوت عنایت فرمائی۔

الۡکِتٰبَ سے مراد توریت، انجیل اور زبور ہیں۔ صرف توریت مراد لینا درست نہیں ہے چونکہ نبوت سے مراد صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت نہیں ہے کتاب سے مراد صرف توریت لیں۔

وَ الۡحُکۡمَ: فیصلہ صادر کرنے کی صلاحیت اور بینش دے دی۔ الۡحُکۡمَ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو انعام آیت ۸۹۔

وَ النُّبُوَّۃَ: بنی اسرائیل میں کثیر تعداد میں انبیاء علیہم السلام مبعوث ہوئے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق ایک ہزار انبیاء علیہم السلام ان میں مبعوث ہوئے ہیں۔

وَ رَزَقۡنٰہُمۡ: پاکیزہ رزق، من و سلوی اور فلسطین جیسی زرخیزی کی شکل میں عنایت فرمایا۔

وَ فَضَّلۡنٰہُمۡ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ: اپنے زمانے کے تمام عالمین پر نبی اسرائیل کو فضلیت دی۔

وَ اٰتَیۡنٰہُمۡ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ: بَیِّنٰتٍ سے مراد معجزات ہیں جو بنی اسرائیل کے انبیاء علیہم السلام کی صداقت پر واضح دلائل ہیں۔

مِّنَ الۡاَمۡرِ سے مراد کہتے ہیں امر دین ہے۔ یعنی دین کی حقانیت پر واضح دلائل دیے۔

فَمَا اخۡتَلَفُوۡۤا اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ: حق کی پوری طرح وضاحت کے بعد ان میں اختلاف آنا تعلیمات دینی میں کسی ابہام کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ آپس میں ایک دوسرے کو زیر کرنے کی سعی کے نتیجے میں اختلاف آیا۔


آیات 16 - 17