وَ قَالُوۡا لَوۡ لَا نُزِّلَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الۡقَرۡیَتَیۡنِ عَظِیۡمٍ﴿۳۱﴾

۳۱۔ اور کہتے ہیں: یہ قرآن دونوں بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہیں کیا گیا؟

31۔ یعنی مکہ اور طائف کے کسی رئیس قبیلہ کو اس عہدے کے لیے منتخب کرتا۔ اللہ کو اپنا نمائندہ بنانے کے لیے عبد اللہ کا یتیم ملا، جس کے پاس نہ دولت تھی، نہ کسی قبیلے کی سرداری۔

اَہُمۡ یَقۡسِمُوۡنَ رَحۡمَتَ رَبِّکَ ؕ نَحۡنُ قَسَمۡنَا بَیۡنَہُمۡ مَّعِیۡشَتَہُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ رَفَعۡنَا بَعۡضَہُمۡ فَوۡقَ بَعۡضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعۡضُہُمۡ بَعۡضًا سُخۡرِیًّا ؕ وَ رَحۡمَتُ رَبِّکَ خَیۡرٌ مِّمَّا یَجۡمَعُوۡنَ﴿۳۲﴾

۳۲۔ کیا آپ کے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟ جب کہ دنیاوی زندگی کی معیشت کو ان کے درمیان ہم نے تقسیم کیا ہے اور ہم ہی نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر درجات میں فوقیت دی ہے تاکہ ایک دوسرے سے کام لے اور آپ کے رب کی رحمت اس چیز سے بہتر ہے جسے یہ لوگ جمع کرتے ہیں۔

32۔ جواب میں فرمایا: تیرے رب کی رحمت کی تقسیم کا اختیار ان کو کس نے دیا؟ ہم نے اس سے کمتر چیز، یعنی ان کا ذریعہ حیات، روزی بھی کسی کے اختیار میں نہیں دی۔ نہ ہی بندوں کے درمیان جو تفاوت درجات رکھتے ہیں، کوئی مخدوم اور کوئی خادم ہے، وہ بھی ہم نے کسی کے ہاتھ میں نہیں دیا تو نبوت جیسے الٰہی منصب کو ان کے قائم کردہ معیار کے مطابق کیسے تقسیم کر سکتے ہیں۔

وَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ یَّکُوۡنَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً لَّجَعَلۡنَا لِمَنۡ یَّکۡفُرُ بِالرَّحۡمٰنِ لِبُیُوۡتِہِمۡ سُقُفًا مِّنۡ فِضَّۃٍ وَّ مَعَارِجَ عَلَیۡہَا یَظۡہَرُوۡنَ ﴿ۙ۳۳﴾

۳۳۔ اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ (کافر) لوگ سب ایک ہی جماعت (میں مجتمع) ہو جائیں گے تو ہم خدائے رحمن کے منکروں کے گھروں کی چھتوں اور سیڑھیوں کو جن پر وہ چڑھتے ہیں چاندی سے،

وَ لِبُیُوۡتِہِمۡ اَبۡوَابًا وَّ سُرُرًا عَلَیۡہَا یَتَّکِـُٔوۡنَ ﴿ۙ۳۴﴾

۳۴۔ اور ان کے گھروں کے دروازوں اور ان تختوں کو جن پر وہ تکیہ لگاتے ہیں،

34۔ جس مال و دولت کی فراوانی کو نادان لوگ باعث خوشحالی سمجھتے ہیں، وہ حقیقت میں ایک بدحالی ہے۔ دنیا میں اس سے امن و سکون چھن جاتا ہے اور وسائل کی فراوانی کی وجہ سے اس کی حیوانی خواہشات بیدار ہو جاتی ہیں۔ وہ خواہشات کا بندہ ہو جاتا ہے۔ پھر وہ نہ خواہشات کو سیر کر سکتا ہے، نہ روک سکتا ہے۔اس طرح زندگی اندر سے دوزخ بن جاتی ہے۔ اس آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ اگر ان مالداروں کی ظاہری شان و شوکت دیکھ کر سب لوگوں کے کفر اختیار کرنے کا خطرہ نہ ہوتا تو ہم کفار کو اس دوزخ میں مزید دھکیل دیتے اور ان کو سونے چاندی کے گھر عطا کرتے۔

وَ زُخۡرُفًا ؕ وَ اِنۡ کُلُّ ذٰلِکَ لَمَّا مَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ؕ وَ الۡاٰخِرَۃُ عِنۡدَ رَبِّکَ لِلۡمُتَّقِیۡنَ﴿٪۳۵﴾

۳۵۔ (چاندی) اور سونے سے بنا دیتے اور یہ سب دنیاوی متاع حیات ہے اور آخرت آپ کے رب کے ہاں اہل تقویٰ کے لیے ہے۔

وَ مَنۡ یَّعۡشُ عَنۡ ذِکۡرِ الرَّحۡمٰنِ نُقَیِّضۡ لَہٗ شَیۡطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیۡنٌ﴿۳۶﴾

۳۶۔ اور جو بھی رحمن کے ذکر سے پہلوتہی کرتا ہے ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں تو وہی اس کا ساتھی ہو جاتا ہے۔

36۔ ایک گناہ دوسرے گناہ اور ایک جرم دوسرے جرم کے ارتکاب کے لیے زینہ بنتا ہے۔ ایک بار کسی جرم کے مرتکب ہونے سے شیطان کے دام میں آسانی سے پھنس جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ بھی اسے شیطان کے دام میں چھوڑ دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ اللہ اس سے ہاتھ اٹھا لے اور اسے اپنے حال پر چھوڑ دے۔ اس صورت میں اسے راہ حق دکھانے والا کوئی نہ ہو گا۔ پوری طرح شیطان کے دام میں پھنس جائے گا۔

نُقَیِّضۡ کی نسبت اللہ کی طرف اس طرح ہے کہ اللہ نے اسے اس کے جرم کی پاداش میں اپنے حال پر چھوڑ دیا تو وہ شیطان کے زیر تسلط چلا گیا۔

وَ اِنَّہُمۡ لَیَصُدُّوۡنَہُمۡ عَنِ السَّبِیۡلِ وَ یَحۡسَبُوۡنَ اَنَّہُمۡ مُّہۡتَدُوۡنَ﴿۳۷﴾

۳۷۔ اور وہ (شیاطین) انہیں راہ (حق) سے روکتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ راہ راست پر ہیں۔

37۔ اس طرح وہ ضلالت مرکبہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ضلالت کی اتھاہ گہرائی میں یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہی راہ راست پر ہیں۔ اس ضلالت مرکبہ کی وجہ سے وہ حق کی جستجو کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔

حَتّٰۤی اِذَا جَآءَنَا قَالَ یٰلَیۡتَ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَکَ بُعۡدَ الۡمَشۡرِقَیۡنِ فَبِئۡسَ الۡقَرِیۡنُ﴿۳۸﴾

۳۸۔ جب یہ شخص ہمارے پاس آئے گا تو کہے گا: اے کاش! میرے درمیان اور تیرے درمیان دو مشرقوں کا فاصلہ ہوتا، تو بہت برا ساتھی ہے۔

38۔ اللہ کی بارگاہ میں پہنچنے پر پتہ چلے گا کہ وہ کس دام میں مبتلا رہا ہے۔

بُعۡدَ الۡمَشۡرِقَیۡنِ میں دو مشرقوں سے مراد مشرق و مغرب ہے۔ جیسے والد اور والدہ کے لیے والدین کہتے ہیں۔

وَ لَنۡ یَّنۡفَعَکُمُ الۡیَوۡمَ اِذۡ ظَّلَمۡتُمۡ اَنَّکُمۡ فِی الۡعَذَابِ مُشۡتَرِکُوۡنَ﴿۳۹﴾

۳۹۔ اور جب تم ظلم کر چکے تو آج (ندامت) تمہیں فائدہ نہیں دے گی، عذاب میں یقینا تم سب شریک ہو۔

اَفَاَنۡتَ تُسۡمِعُ الصُّمَّ اَوۡ تَہۡدِی الۡعُمۡیَ وَ مَنۡ کَانَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ﴿۴۰﴾

۴۰۔ کیا آپ بہروں کو سنا سکتے ہیں یا اندھے کو یا اسے جو واضح گمراہی میں ہے راستہ دکھا سکتے ہیں؟