آیات 26 - 27
 

وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہِیۡمُ لِاَبِیۡہِ وَ قَوۡمِہٖۤ اِنَّنِیۡ بَرَآءٌ مِّمَّا تَعۡبُدُوۡنَ ﴿ۙ۲۶﴾

۲۶۔ اور جب ابراہیم نے اپنے باپ (چچا) اور اپنی قوم سے کہا: جنہیں تم پوجتے ہو ان سے میں یقینا بیزار ہوں۔

اِلَّا الَّذِیۡ فَطَرَنِیۡ فَاِنَّہٗ سَیَہۡدِیۡنِ﴿۲۷﴾

۲۷۔ سوائے اپنے رب کے جس نے مجھے پیدا کیا، یقینا وہی مجھے سیدھا راستہ دکھائے گا۔

تفسیر آیات

آبائی تقلید کے خلاف قیام کی بہترین مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت میں ہے کہ ایک مشرک ماحول میں پلے بڑھے پھر بھی ایک مقتدر مشرک آزر کے خلاف قیام کرتے ہیں جو ان کے باپ کی جگہ تھا اور ساتھ اقتدار پر بھی اور بادشاہ کے بعد سب سے بڑے منصب (بت خانے کا انچارج) پر فائز تھا۔

اے مشرکین اگر تمہیں اپنے آباء کی تقلید کرنی ہے تو اپنے باپ بت شکن ابراہیم کی تقلید کیوں نہیں کرتے جو تمہارے آباء سے زیادہ محترم ہیں، جن پر تمہارے افتخارات کا دارومدار ہے۔

۱۔ وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہِیۡمُ لِاَبِیۡہِ وَ قَوۡمِہٖۤ: چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اس توحیدی تحریک کا آغاز اپنے باپ (چچا) سے کیا جو ایک قوم کے برابرطاقت و قوت کا مالک تھا۔

۲۔ اِنَّنِیۡ بَرَآءٌ مِّمَّا تَعۡبُدُوۡنَ: فرمایا: میں تمہارے معبودوں سے برائت چاہتا ہوں۔ یعنی اے مشرکو! تمہارے جد اعلیٰ بتوں سے بیزاری اختیار کرتے ہیں۔ تم کس منطق کی رو سے ان بتوں کو معبود بناتے ہو۔

۳۔ اِلَّا الَّذِیۡ فَطَرَنِیۡ: میں اس ذات سے برائت نہیں اختیار کرتا بلکہ اسے معبود بناتا ہوں جس نے مجھے پیدا ہے۔ صرف اور صرف میرا خالق لائق عبادت ہے۔ عبادت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ ذات میری راہنمائی کرتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس جگہ لائق عبادت ہونے کے لیے دو باتوں کا ذکر فرماتے ہیں۔ ایک خلق، دوسری ہدایت۔

۴۔ فَاِنَّہٗ سَیَہۡدِیۡنِ: واضح رہے اصل سرچشمہ ہدایت اللہ کی ذات ہے۔ وہ ہدایت فطرت اور خلقت میں ودیعت اور انبیاء علیہم السلام مبعوث فرماتا ہے۔ انبیاء علیہم السلام اللہ سے ملنے والی ہدایت لوگوں کو پہنچاتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ معبود وہ ہوتا ہے جو خلقت کے ساتھ ہدایت کا بھی اہتمام کرے۔


آیات 26 - 27