برائت از مشرکین کی تحریک


وَ جَعَلَہَا کَلِمَۃًۢ بَاقِیَۃً فِیۡ عَقِبِہٖ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔ اور اللہ نے اس (توحید پرستی) کو ابراہیم کی نسل میں کلمہ باقیہ قرارد یا تاکہ وہ (اللہ کی طرف) رجوع کریں۔

28۔ وَ جَعَلَہَا میں ضمیر بَرَآءَۃٌ کی طرف جاتی ہے، جو اِنَّنِیۡ بَرَآءٌ میں مذکور ہے۔ یعنی برائت از مشرکین کی تحریک جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے شروع فرمائی ہے، اسے اللہ تعالیٰ نے اولاد ابراہیم میں کلمہ باقیہ قرار دے کر اولاد ابراہیم کے ذریعے ابدیت بخشی ہے۔ چنانچہ جب برائت از مشرکین کی یہ تحریک فرزند ابراہیم علیہ السلام حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کے دست مبارک سے ایک ابدی مرحلے میں داخل ہو گئی، حضرت خلیل علیہ السلام کے ایک بت شکن فرزند حضرت علی علیہ السلام نے 9ھ کو حج اکبر کے موقع پر برائت از مشرکین کا اعلان فرمایا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ توبہ آیت 3) آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اولاد ابراہیم میں برائت از مشرکین یعنی توحید کی یہ تحریک قیامت تک باقی رہے گی۔

لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ : تاکہ لوگ شرک چھوڑ کر توحید کی طرف، غیر اللہ کو چھوڑ کر اللہ کی طرف رجوع کریں۔ چنانچہ آج روئے زمین پر جتنے بھی توحید پرست لوگ ہیں، وہ ابراہیم علیہ السلام اور اس کی آل کی اس تحریک کا نتیجہ ہیں۔