فَاطِرُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا وَّ مِنَ الۡاَنۡعَامِ اَزۡوَاجًا ۚ یَذۡرَؤُکُمۡ فِیۡہِ ؕ لَیۡسَ کَمِثۡلِہٖ شَیۡءٌ ۚ وَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ﴿۱۱﴾

۱۱۔ (وہی) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، اسی نے خود تمہاری جنس سے تمہارے لیے ازواج بنائے اور چوپایوں کے بھی جوڑے بنائے، اس طرح سے وہ تمہاری افزائش کرتا ہے، اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے اور وہ خوب سننے والا، دیکھنے والا ہے۔

لَہٗ مَقَالِیۡدُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یَقۡدِرُ ؕ اِنَّہٗ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ﴿۱۲﴾

۱۲۔ آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اس کی ملکیت ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے رزق میں کشادگی اور تنگی دیتا ہے، وہ یقینا ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔

شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا وَّ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ وَ مَا وَصَّیۡنَا بِہٖۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰۤی اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ کَبُرَ عَلَی الۡمُشۡرِکِیۡنَ مَا تَدۡعُوۡہُمۡ اِلَیۡہِ ؕ اَللّٰہُ یَجۡتَبِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یُّنِیۡبُ﴿۱۳﴾

۱۳۔ اس نے تمہارے لیے دین کا وہی دستور معین کیا جس کا اس نے نوح کو حکم دیا تھا اور جس کی ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی ہے اور جس کا ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا، مشرکین کو وہ بات ناگوار گزری ہے جس کی طرف آپ انہیں دعوت دیتے ہیں، اللہ جسے چاہتا ہے اپنا برگزیدہ بنا لیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اسی کو اپنی طرف راستہ دکھاتا ہے۔

13۔ مشرکین اپنے معبودوں کو رازق سمجھتے تھے۔ ان کی رد میں فرمایا: آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اللہ کے پاس ہیں۔ ان خزانوں سے رزق دینے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ کسی کو رزق میں کشادگی اور کسی کو تنگی، یعنی نپا تلا رزق اس علم کی بنیاد پر دیتا ہے، جو صرف اللہ کے پاس ہے۔

دین پر عمل کرنے کے طریقے کو شریعت کہا جاتا ہے۔ ہر دور کی شریعت کے مختلف ہونے کے باوجود شریعت دین سے مختلف چیز نہیں ہے۔ جیسا کہ دین اور شریعت میں موجود فرق کو سمجھنے میں کچھ لوگوں کو دشواری پیش آئی ہے۔ اللہ کے دین واحد پر عمل کرنے کے لیے ہر دور میں مختلف طریقے نافذ رہے۔ اولین طریقہ تو فطری تقاضے ہیں۔ جب انسان نے فطری راہوں سے انحراف شروع کیا تو قانون سازی کے ذریعے انسان کو واپس اس کے فطری تقاضوں کی طرف لا نے کے لیے شریعت کا آغاز حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے سے ہوا۔ اس کے بعد اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ جو شریعت رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وحی ہوئی، اس کا ذکر آیا۔ پھر حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کا ذکر آیا۔ یہ پانچ اولوالعزم صاحبان شریعت انبیاء ہیں۔

اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ : اَنْ تفسیری ہے۔ یعنی دین کا جو دستور نوح علیہ السلام سے شروع ہوا اور نبی خاتم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ختم ہوا، ان شریعتوں کے ذریعے دین قائم رکھا جائے۔ لہٰذا دین کا اقامہ شریعت کے ذریعے ہو سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں عقائد کا تحفظ عمل سے ہو سکتا ہے۔

وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا : تفرقہ نہ ڈالنا۔ اس میں اقامہ دین کے لیے قانون پر عمل کرنے میں اختلاف و تفرقے کا شکار نہ ہونے کا حکم ہے۔

وَ مَا تَفَرَّقُوۡۤا اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّکَ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی لَّقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اُوۡرِثُوا الۡکِتٰبَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ مُرِیۡبٍ﴿۱۴﴾

۱۴۔ اور یہ لوگ اپنے پاس علم آنے کے بعد صرف آپس کی سرکشی کی وجہ سے تفرقے کا شکار ہوئے اور اگر آپ کے رب کی طرف سے ایک مقررہ وقت تک کے لیے بات طے نہ ہو چکی ہوتی تو ان کے درمیان فیصلہ ہو چکا ہوتا اور جو لوگ ان کے بعد کتاب کے وارث ہوئے وہ اس کے بارے میں شبہ انگیز شک میں ہیں۔

14۔ علم کے آنے سے پہلے جو اختلاف پیدا ہوا، اسے ختم کرنے کے لیے علم آگیا۔ علم کے آنے اور حجت پوری ہونے کے بعد جو اختلاف رونما ہوا ہے، اس کے جوابدہ اختلاف کرنے والے خود ہیں۔

فَلِذٰلِکَ فَادۡعُ ۚ وَ اسۡتَقِمۡ کَمَاۤ اُمِرۡتَ ۚ وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَہُمۡ ۚ وَ قُلۡ اٰمَنۡتُ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنۡ کِتٰبٍ ۚ وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ ؕ اَللّٰہُ رَبُّنَا وَ رَبُّکُمۡ ؕ لَنَاۤ اَعۡمَالُنَا وَ لَکُمۡ اَعۡمَالُکُمۡ ؕ لَا حُجَّۃَ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ ؕ اَللّٰہُ یَجۡمَعُ بَیۡنَنَا ۚ وَ اِلَیۡہِ الۡمَصِیۡرُ ﴿ؕ۱۵﴾

۱۵۔ لہٰذا آپ اس کے لیے دعوت دیں اور جیسے آپ کو حکم ملا ہے ثابت قدم رہیں اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں اور کہدیجئے: اللہ نے جو کتاب نازل کی ہے میں اس پر ایمان لایا اور مجھے حکم ملا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں، اللہ ہمارا رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے، ہمارے اعمال ہمارے لیے اور تمہارے اعمال تمہارے لیے ہیں، ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی بحث نہیں، اللہ ہی ہمیں (ایک جگہ) جمع کرے گا اور بازگشت بھی اسی کی طرف ہے۔

15۔ اسلامی قیادت کے لیے پہلی لازمی چیز استقامت ہے، دوسری چیز لوگوں کی خواہشات کی پیروی ترک کر کے ان کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔ عدل و انصاف میں یہ دونوں باتیں، یعنی خواہشات کی نفی اور حقوق کا تحفظ، مضمر ہیں۔

وَ قُلۡ اٰمَنۡتُ : تمام شریعتوں پر، جو آسمانی کتابوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں، یکساں ایمان کا حکم ہے۔

وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے درمیان عدل و انصاف قائم رکھوں، جو اس شریعت کے ڈھانچے کا ستون ہے۔

اَللّٰہُ رَبُّنَا وَ رَبُّکُمۡ : یہ شریعتیں اس ذات کی طرف سے ہیں، جو ہم سب کا رب ہے۔ لہٰذا انہیں چاہیے کہ ان سب شریعتوں کو تسلیم کریں۔

لَنَاۤ اَعۡمَالُنَا وَ لَکُمۡ اَعۡمَالُکُمۡ : ان تمام شریعتوں پر ایمان لانے سے فائدہ خود تمہارا ہے، کیونکہ تمہارے اعمال خود تمہارے لیے فائدہ مند ہیں۔

لَا حُجَّۃَ بَیۡنَنَا : جب سب شریعتیں اللہ کی طرف سے ہیں تو نزاع اور جھگڑے کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔

وَ الَّذِیۡنَ یُحَآجُّوۡنَ فِی اللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا اسۡتُجِیۡبَ لَہٗ حُجَّتُہُمۡ دَاحِضَۃٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ وَ عَلَیۡہِمۡ غَضَبٌ وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ﴿۱۶﴾

۱۶۔ اور جو لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں بعد اس کے کہ اسے مان لیا گیا ہے، ان کے رب کے نزدیک ان کی دلیل باطل ہے اور ان پر غضب ہے اور ان کے لیے سخت ترین عذاب ہے ۔

16۔ اللہ کو یا اس کے دین کو مان لینے کے بعد منکرین کی دلیل مسترد ہے۔”مان لینے کے بعد“ سے مراد بعض مفسرین کے نزدیک فطرت سلیمہ کی طرف سے مان لینا ہے۔ یعنی جب بہت سے لوگوں نے اپنی فطرت سلیمہ کے تقاضوں کے مطابق اللہ کو یا اس کے دین کو تسلیم کیا ہے تو فطرت سلیمہ کے خلاف کوئی دلیل قابل توجہ نہیں ہے۔ اس آیت کی دوسری تفسیر یہ کی گئی ہے: اللہ کی دعوت کو قبول کرنے کے بعد جو لوگ ان دعوت قبول کرنے والوں سے جھگڑتے ہیں، ان کی دلیل و حجت قبول نہیں ہے۔ یہ تفسیر اگرچہ اپنی جگہ درست ہے، لیکن بظاہر توضیح واضح دکھائی دیتا ہے، مگر اینکہ یہ کہا جائے کہ جن لوگوں نے اسلام کی حقانیت کی پہچان کے بعد اسے تسلیم کر لیا ہے، ان کے خلاف کوئی دلیل کارگر ثابت نہ ہو گی۔

اَللّٰہُ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ وَ الۡمِیۡزَانَ ؕ وَ مَا یُدۡرِیۡکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ قَرِیۡبٌ﴿۱۷﴾

۱۷۔ اللہ وہی ہے جس نے برحق کتاب اور میزان نازل کیا اور آپ کو کیا معلوم کہ شاید قیامت نزدیک آگئی ہو۔

یَسۡتَعۡجِلُ بِہَا الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِہَا ۚ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مُشۡفِقُوۡنَ مِنۡہَا ۙ وَ یَعۡلَمُوۡنَ اَنَّہَا الۡحَقُّ ؕ اَلَاۤ اِنَّ الَّذِیۡنَ یُمَارُوۡنَ فِی السَّاعَۃِ لَفِیۡ ضَلٰلٍۭ بَعِیۡدٍ﴿۱۸﴾

۱۸۔ جو لوگ اس (قیامت) پر ایمان نہیں رکھتے وہ اس کے بارے میں جلدی مچا رہے ہیں اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ اس سے ڈرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ قیامت یقینا برحق ہے، آگاہ رہو! جو قیامت کے بارے میں جھگڑتے ہیں، وہ یقینا گمراہی میں دور نکل گئے ہیں۔

اَللّٰہُ لَطِیۡفٌۢ بِعِبَادِہٖ یَرۡزُقُ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ ہُوَ الۡقَوِیُّ الۡعَزِیۡزُ﴿٪۱۹﴾

۱۹۔ اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہے، وہ جسے چاہتا ہے رزق دیتا ہے اور وہی بڑا طاقت والا، بڑا غالب آنے والا ہے۔

19۔ لَطِیۡفٌۢ بِعِبَادِہٖ : یعنی اپنے بندوں کی باریک ترین باتوں کا بھی وہ مہر و محبت سے خیال رکھنے والا ہے۔ اللہ کی مہربانی کا یہی خاصہ ہے کہ اس کی مہربانی بندے کی باریک ترین ضروریات سے آگہی کے مطابق ہے۔

مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ حَرۡثَ الۡاٰخِرَۃِ نَزِدۡ لَہٗ فِیۡ حَرۡثِہٖ ۚ وَ مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ حَرۡثَ الدُّنۡیَا نُؤۡتِہٖ مِنۡہَا وَ مَا لَہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنۡ نَّصِیۡبٍ﴿۲۰﴾

۲۰۔ جو شخص آخرت کی کھیتی کا خواہاں ہو ہم اس کی کھیتی میں اضافہ کرتے ہیں اور جو دنیا کی کھیتی کا خواہاں ہو ہم اسے دنیا میں سے (کچھ) دے دیتے ہیں اور آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہ ہو گا۔

20۔ اس آیت میں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے طالب دنیا سے کہا:ا سے آخرت میں کچھ نہ ملے گا۔ لیکن طالب آخرت سے نہیں کہا کہ اسے دنیا میں کچھ نہیں ملے گا۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے: اِنَّ الْمَالَ وَ الْبَنِیْنَ حَرْثُ الدُّنْیَا وَ الْعَمَلَ الصَّالِحَ حَرْثُ الْآخِرَۃِ وَ قَدْ یَجْمَعُھُمَا اللہ لِاَقْوَامٍ ۔ (الکافی 5: 57) یعنی مال اور اولاد دنیا کی کھیتی ہیں اور نیک اعمال آخرت کی اور کبھی بعض لوگوں کے لیے اللہ دونوں عنایت فرماتا ہے۔