آیت 15
 

فَلِذٰلِکَ فَادۡعُ ۚ وَ اسۡتَقِمۡ کَمَاۤ اُمِرۡتَ ۚ وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَہُمۡ ۚ وَ قُلۡ اٰمَنۡتُ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنۡ کِتٰبٍ ۚ وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ ؕ اَللّٰہُ رَبُّنَا وَ رَبُّکُمۡ ؕ لَنَاۤ اَعۡمَالُنَا وَ لَکُمۡ اَعۡمَالُکُمۡ ؕ لَا حُجَّۃَ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ ؕ اَللّٰہُ یَجۡمَعُ بَیۡنَنَا ۚ وَ اِلَیۡہِ الۡمَصِیۡرُ ﴿ؕ۱۵﴾

۱۵۔ لہٰذا آپ اس کے لیے دعوت دیں اور جیسے آپ کو حکم ملا ہے ثابت قدم رہیں اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں اور کہدیجئے: اللہ نے جو کتاب نازل کی ہے میں اس پر ایمان لایا اور مجھے حکم ملا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں، اللہ ہمارا رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے، ہمارے اعمال ہمارے لیے اور تمہارے اعمال تمہارے لیے ہیں، ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی بحث نہیں، اللہ ہی ہمیں (ایک جگہ) جمع کرے گا اور بازگشت بھی اسی کی طرف ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ فَلِذٰلِکَ فَادۡعُ ۚ وَ اسۡتَقِمۡ:فَلِذٰلِکَ جب حالت یہ ہے کہ تمام لوگوں کو شریعت اور دستور حیات دیا گیا مگر لوگوں نے اس میں تفرقہ ڈالا اور علم آنے کے باوجود خواہش پرستی اور جاہ طلبی میں یہ لوگ سرکش ہوتے رہے اور انبیاء کے بعد آنے والی نسلوں تک یہ شریعت مسخ ہو کر رہ گئی، ان حالات میں

۲۔ فَادۡعُ ۚ وَ اسۡتَقِمۡ: آپ اپنی دعوت جاری رکھیں اور لوگوں کو اللہ کی وحدت اور ربوبیت کی طرف بلائیں۔ اسلامی قیادت کے لیے پہلی لازمی چیز استقامت ہے اور منزل پر یقین ہونے کی صورت میں استقامت آ جاتی ہے۔

۳۔ وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَہُمۡ: اس خواہش میں کہ لوگ اسلامی دعوت کی طرف جذب ہو جائیں کسی قسم کی سودا بازی نہ کریں۔ اسلامی قانون اور شریعت کی طرف دعوت دینے کی راہ میں اس شریعت کی کسی ایک شق سے ہاتھ اٹھانا درست نہ ہو گا۔ اسی مصلحت پرستی میں آ کر یہود اور نصاریٰ نے اپنی شریعت کو مسخ کردیا ہے۔ تمام مصلحتیں اللہ کی دی ہوئی شریعت میں ہیں۔

۴۔ وَ قُلۡ اٰمَنۡتُ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ: آپ یہ اعلان کریں: میں کسی تفریق کے بغیر اللہ کی طرف سے آنی والی ہر کتاب اور ان میں موجود ہر شریعت کے برحق ہونے پر ایمان رکھتا ہوں۔

۵۔ وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ: یہ بھی اعلان کیجیے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان عدل قائم کروں جو اس شریعت کا ستون ہے۔

۶۔ اَللّٰہُ رَبُّنَا وَ رَبُّکُمۡ: اللہ ہمارا رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے۔ ایک ہی رب کے عباد ہونے میں ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی امتیاز نہیں ہے۔ ہم تمہارے نعرۂ نَحۡنُ اَبۡنٰٓؤُا اللّٰہِ وَ اَحِبَّآؤُہٗ۔۔۔ ( ۵ مائدہ: ۱۸) (ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں) کو قبول نہیں کرتے۔

۷۔ لَنَاۤ اَعۡمَالُنَا وَ لَکُمۡ اَعۡمَالُکُمۡ: اس طرح عمل پر مترتب ہونے والے نتائج میں بھی ہم کسی قسم کی تفریق کے قائل نہیں ہیں۔ گناہ کا ارتکاب کرنے والے یہود، مسیحی اور مسلمان یکساں ہیں۔ تمہارا یہ نعرہ قبول نہیں کہ یہود گناہ کرے تو عذاب نہ ہو گا، مسیحی گناہ کرے تو مسیحی نے اس کا کفارہ دینا ہے بلکہ ہر ایک کو اپنے عمل کا جواب دینا ہے۔

۸۔ لَا حُجَّۃَ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ: نفی جواز ہے، نہ نفی وجود کہ جب اہل کتاب اور اہل اسلام کا رب ایک ہے اور جزائے عمل میں ہر ایک اپنے اپنے عمل کا جوابدہ ہے تو اہل کتاب اور اہل اسلام میں سے کون کس سے بہتر اور برتر ہے کی بحث کا کوئی جواز نہیں ہے چونکہ اگر کوئی برتری آنا تھی تو دو حوالوں سے ممکن تھی: اللہ کے ساتھ نسبت اور اعمال کے آثار و نتائج۔ جب اللہ کے ساتھ نسبت ایک ہے اور اعمال کے نتائج بھی ایک جیسے ہیں تو یہاں برتری کی کوئی بحث باقی نہیں رہتی۔

۹۔ اَللّٰہُ یَجۡمَعُ بَیۡنَنَا : اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہمیں ایک جگہ جمع کرے گا اور وہاں ہمارے درمیان فیصلہ ہو گا۔ اس جملے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ قیامت کے دن اہل حق اور اہل باطل کا آمنا سامنا ہو گا۔ اللہ کی عدالت میں دونوں جمع ہوں گے جہاں حق اور ناحق کا فیصلہ سنا دیا جائے گا۔


آیت 15