شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا وَّ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ وَ مَا وَصَّیۡنَا بِہٖۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰۤی اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ کَبُرَ عَلَی الۡمُشۡرِکِیۡنَ مَا تَدۡعُوۡہُمۡ اِلَیۡہِ ؕ اَللّٰہُ یَجۡتَبِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یُّنِیۡبُ﴿۱۳﴾

۱۳۔ اس نے تمہارے لیے دین کا وہی دستور معین کیا جس کا اس نے نوح کو حکم دیا تھا اور جس کی ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی ہے اور جس کا ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا، مشرکین کو وہ بات ناگوار گزری ہے جس کی طرف آپ انہیں دعوت دیتے ہیں، اللہ جسے چاہتا ہے اپنا برگزیدہ بنا لیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اسی کو اپنی طرف راستہ دکھاتا ہے۔

13۔ مشرکین اپنے معبودوں کو رازق سمجھتے تھے۔ ان کی رد میں فرمایا: آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اللہ کے پاس ہیں۔ ان خزانوں سے رزق دینے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ کسی کو رزق میں کشادگی اور کسی کو تنگی، یعنی نپا تلا رزق اس علم کی بنیاد پر دیتا ہے، جو صرف اللہ کے پاس ہے۔

دین پر عمل کرنے کے طریقے کو شریعت کہا جاتا ہے۔ ہر دور کی شریعت کے مختلف ہونے کے باوجود شریعت دین سے مختلف چیز نہیں ہے۔ جیسا کہ دین اور شریعت میں موجود فرق کو سمجھنے میں کچھ لوگوں کو دشواری پیش آئی ہے۔ اللہ کے دین واحد پر عمل کرنے کے لیے ہر دور میں مختلف طریقے نافذ رہے۔ اولین طریقہ تو فطری تقاضے ہیں۔ جب انسان نے فطری راہوں سے انحراف شروع کیا تو قانون سازی کے ذریعے انسان کو واپس اس کے فطری تقاضوں کی طرف لا نے کے لیے شریعت کا آغاز حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے سے ہوا۔ اس کے بعد اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ جو شریعت رسول اللہ ﷺ پر وحی ہوئی، اس کا ذکر آیا۔ پھر حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کا ذکر آیا۔ یہ پانچ اولوالعزم صاحبان شریعت انبیاء ہیں۔

اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ : اَنْ تفسیری ہے۔ یعنی دین کا جو دستور نوح علیہ السلام سے شروع ہوا اور نبی خاتم ﷺ پر ختم ہوا، ان شریعتوں کے ذریعے دین قائم رکھا جائے۔ لہٰذا دین کا اقامہ شریعت کے ذریعے ہو سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں عقائد کا تحفظ عمل سے ہو سکتا ہے۔

وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا : تفرقہ نہ ڈالنا۔ اس میں اقامہ دین کے لیے قانون پر عمل کرنے میں اختلاف و تفرقے کا شکار نہ ہونے کا حکم ہے۔