طالب دنیا کا حصہ


مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ حَرۡثَ الۡاٰخِرَۃِ نَزِدۡ لَہٗ فِیۡ حَرۡثِہٖ ۚ وَ مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ حَرۡثَ الدُّنۡیَا نُؤۡتِہٖ مِنۡہَا وَ مَا لَہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنۡ نَّصِیۡبٍ﴿۲۰﴾

۲۰۔ جو شخص آخرت کی کھیتی کا خواہاں ہو ہم اس کی کھیتی میں اضافہ کرتے ہیں اور جو دنیا کی کھیتی کا خواہاں ہو ہم اسے دنیا میں سے (کچھ) دے دیتے ہیں اور آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہ ہو گا۔

20۔ اس آیت میں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے طالب دنیا سے کہا:ا سے آخرت میں کچھ نہ ملے گا۔ لیکن طالب آخرت سے نہیں کہا کہ اسے دنیا میں کچھ نہیں ملے گا۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے: اِنَّ الْمَالَ وَ الْبَنِیْنَ حَرْثُ الدُّنْیَا وَ الْعَمَلَ الصَّالِحَ حَرْثُ الْآخِرَۃِ وَ قَدْ یَجْمَعُھُمَا اللہ لِاَقْوَامٍ ۔ (الکافی 5: 57) یعنی مال اور اولاد دنیا کی کھیتی ہیں اور نیک اعمال آخرت کی اور کبھی بعض لوگوں کے لیے اللہ دونوں عنایت فرماتا ہے۔