آیت 14
 

وَ مَا تَفَرَّقُوۡۤا اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّکَ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی لَّقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اُوۡرِثُوا الۡکِتٰبَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ مُرِیۡبٍ﴿۱۴﴾

۱۴۔ اور یہ لوگ اپنے پاس علم آنے کے بعد صرف آپس کی سرکشی کی وجہ سے تفرقے کا شکار ہوئے اور اگر آپ کے رب کی طرف سے ایک مقررہ وقت تک کے لیے بات طے نہ ہو چکی ہوتی تو ان کے درمیان فیصلہ ہو چکا ہوتا اور جو لوگ ان کے بعد کتاب کے وارث ہوئے وہ اس کے بارے میں شبہ انگیز شک میں ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مَا تَفَرَّقُوۡۤا: جو شریعت اور دستور حیات ان گزشتہ امتوں کو دیا گیا تھا ان میں اگر ان لوگوں نے تفرقہ یعنی اختلاف کیا یا تفریق فی العمل بالدین کیا تو یہ تفرقہ یا یہ تفریق اس لیے نہیں تھی کہ انہیں علم نہیں تھا بلکہ یہ سب کچھ علم کے باوجود کیا۔ ان لوگوں نے کچھ کتاب کو مانا اور کچھ کو نہ مانا۔

۲۔ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ: اس تفرقہ یا تفریق کی وجہ احکام شریعت سے سرکشی ہے۔ یہ سرکشی جاہ طلبی اور مفادات کی وجہ سے تھی چونکہ بغی طلب کے معنوں میں ہے۔

۳۔ وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ: اللہ تعالیٰ کا یہ اٹل فیصلہ نہ ہوتا کہ ظالم اور سرکش کو مہلت دینی ہے اور سرکشی کا مرتکب ہوتے ہی تباہ اور نابود نہیں کرنا تو لَّقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ ان لوگوں کو بھی تباہ اور نابود کر دیا جاتا۔

۴۔ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اُوۡرِثُوا الۡکِتٰبَ: لیکن عصر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل کتاب کو اس بات پر ابھی یقین نہیں آیا کہ یہ کتاب اللہ کی طرف سے ہے۔ وہ اہل کتاب ہوتے ہوئے دینی کتاب پر کماحقہ ایمان نہیں رکھتے یا یہ کہ اصل کتاب ان تک پہنچی ہی نہیں۔ ایک مسخ شدہ، تحریف زدہ مکتوب ان کے پاس ہے۔


آیت 14