آیت 13
 

شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا وَّ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ وَ مَا وَصَّیۡنَا بِہٖۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰۤی اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ کَبُرَ عَلَی الۡمُشۡرِکِیۡنَ مَا تَدۡعُوۡہُمۡ اِلَیۡہِ ؕ اَللّٰہُ یَجۡتَبِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یُّنِیۡبُ﴿۱۳﴾

۱۳۔ اس نے تمہارے لیے دین کا وہی دستور معین کیا جس کا اس نے نوح کو حکم دیا تھا اور جس کی ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی ہے اور جس کا ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا، مشرکین کو وہ بات ناگوار گزری ہے جس کی طرف آپ انہیں دعوت دیتے ہیں، اللہ جسے چاہتا ہے اپنا برگزیدہ بنا لیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اسی کو اپنی طرف راستہ دکھاتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ: دین پر عمل کرنے کے طریقے کو شریعت کہا جاتا ہے۔ ہر دور کی شریعت مختلف ہونے کے باوجود شریعت، دین سے مختلف چیز نہیں ہے۔ جیساکہ دین اور شریعت میں فرق سمجھنے میں کچھ لوگوں کو دشواری پیش آئی ہے۔

اللہ کے دین واحد پر عمل کرنے کے لیے ہر دور میں اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق مختلف طریقے نافذ رہے ہیں۔ اولین طریقہ فطری تقاضے ہیں کہ ابتدائی انسان ابھی ملکیت سے آشنا نہیں تھا، اس لیے مفادات کا ٹکراؤ اور مصلحتوں کا تصادم بھی وجود میں نہیں آیا۔ نہایت سادہ زندگی اور رہن سہن کے طریقے ایسے تھے جو فطرت سے متصادم نہیں تھے۔

جب انسان ملکیت سے آشنا ہوئے، اجتماعی زندگی میں مفادات کا تصادم شروع ہوا۔ اس تصادم کی وجہ سے خواہشات کا مغلوب یہ انسان فطرت کے تقاضوں سے دور ہونا شروع ہو گیا۔ جب انسان فطری تقاضوں سے دور ہونے لگا اور ان میں قانون و شریعت لینے کی اہلیت بھی آ گئی تو اس انسان کو واپس اس کے فطری تقاضوں کی طرف لانے کے لیے شریعت کا آغاز ہو گیا۔

شَرَعَ لَکُمۡ: تمہارے لیے واضح راستہ بنایا۔ شَرَعَ (شریعت) کے لغوی معنی واضح راستہ کے ہیں۔ اصطلاح میں ضابطہ اور قانون و دستور کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔ قانون و شریعت بنانے والے کو شارع اور اس پر عمل پیرا ہونے والے کو متشرع کہتے ہیں۔

شارع: اسلامی مسلمہ عقیدے کے مطابق صرف اللہ ہے۔ شریعت اور قانون بنانا اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ ہے۔ کسی غیر اللہ کو اس میں مداخلت کا حق حاصل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہب شیعہ اثنا عشری کے مطابق کسی قانون اور حکم شرعی کے اثبات کے لیے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، دلیل کی ضرورت ہے۔ دلیل کے بغیر کسی حکم کا اللہ کی طرف نسبت دینا جائز نہیں ہے۔

یہ بھی اس مذہب کے مسلمات میں سے ہے کہ دلیل کے دلیل ہونے کے لیے ’’یقین‘‘ شرط ہے۔ دوسرے لفظوں دلیل صرف ’’یقین‘‘ ہے۔ جب تک اس کے دلیل ہونے پر یقین نہ ہو وہ دلیل نہیں بنتی۔ لہٰذا پہلے مرحلے میں ’’یقین‘‘ دلیل ہے۔ دوسرے مرحلے میں وہ چیز بھی دلیل بن جائے گی جس کے دلیل ہونے پر یقین ہو۔

لہٰذا صریح قرآن اور متواتر احادیث سے یقین حاصل ہوتا ہے اور یقین بذات خود دلیل ہے اور عادل اورثقہ کی روایت بھی دلیل ہے چونکہ اس کے دلیل ہونے پر یقین حاصل ہے اور یقین کا مصدر صریح قرآن اور سنت متواترہ ہے۔

اس حکم عقلی سے بھی یقین حاصل ہوتا ہے جس پر تمام عقلاء کا اتفاق ہو۔ جیسے عدل کی اچھائی اور ظلم کی برائی پر تمام عقلاء کا اتفاق ہے۔

اس اصول کے تناظر میں مذہب اہل بیت قیاس کو دلیل نہیں سمجھتا چونکہ اس کے دلیل ہونے پر یقین حاصل نہیں ہے بلکہ روایات متواترہ اہل بیت علیہم السلام سے اس کے دلیل ہونے کی نفی ثابت ہے۔

چونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا مسئلہ ہے اور تشریع و قانون سازی میں مداخلت شرک ہے اس لیے مذہب اہل بیت علیہم السلام کے مضبوط توحیدی موقف کا یہ لازمہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ میں مداخلت لازم آنے والی ہر چیز سے احتراز کیا جائے۔

مِّنَ الدِّیۡنِ: اس شریعت کا سرچشمہ دین ہے۔ شریعت، دین پر عمل کرنے کا طریقہ، شرعۃ و منھاج ہے۔ دوسرے لفظوں میں دین کو اصول اور شریعت کو فروع کا درجہ حاصل ہے کہ شریعت کے بغیر دین پر عمل نہیں ہو سکتا اور دین کے بغیر شریعت کا کوئی مفہوم نہیں بنتا۔ چنانچہ دین کے معنی اطاعت کے ہیں اور اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ۔۔۔۔ ( ۳ آل عمران : ۱۹) کے تحت اسلام کے معنی تسلیم و انقیاد کے ہیں۔ اس طرح دین اطاعت کے معنوں میں اور اسلام، تسلیم و انقیاد کے معنوں میں ہے۔ شریعت نے آ کر بتانا ہے کہ اطاعت، تسلیم و انقیاد کس طریقے سے ہو سکتی ہے۔

یہاں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام ایک دین، یعنی اطاعت و تسلیم کی طرف بلاتے تھے جب کہ اس اطاعت و تسلیم کا طریقہ (شریعت) ہر دور کے تقاضوں کے مطابق تھا۔ لہٰذا دین اور شریعت ناقابل تفریق ہیں، لہٰذا بے عمل عقیدے کو دین نہیں کہتے۔ اسی طرح بے عقیدہ عمل کو شریعت نہیں کہتے۔ اسلام مسیحیت کی طرح دین بلا شریعت نہیں ہے،نہ کمیونزم کی طرح قانون بلا دین ہے۔

دین و شرعیت میں تفریق نہ ہونے کی وجہ سے کبھی شریعت کو دین کہا گیا۔ جیسے لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ۔۔۔۔ (۲ بقرہ: ۲۵۶) چنانچہ اِكْرَاہَکا تعلق عمل سے ہے جو شریعت سے متعلق ہے۔

۲۔ مَا وَصّٰی بِہٖ: فطرت کی راہ سے بھٹکنے والے اس انسان کو پہلی بار حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں شریعت دی گئی۔ حضرت نوح علیہ السلام سے پہلے شریعت نہیں دی گئی چونکہ دین پر عمل پیرا لوگ اپنے فطری تقاضوں کے مطابق دین پر عمل کرتے تھے اور حضرت نوح علیہ السلام موجودہ انسانی نسل کے دوسرے ابوالبشر ہیں۔

۳۔ وَّ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ: اللہ نے تمہارے لیے دین کا وہی دستور معین کیا جس کا اس نے نوح علیہ السلام کو حکم دیاتھا اور جس کی آپؐ کی طرف وحی بھیجی ہے۔ شریعت کی ابتدا اور تکمیل کا ذکر ہے کہ اللہ نے انسانوں کے لیے دستور حیات دنیا نوح علیہ السلام کے زمانے سے شروع کیا اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اسے تکمیل تک پہنچایا۔

حضرت نوح علیہ السلام کو جو شریعت عنایت ہوئی اس کے لیے مَا وَصّٰی عہد کیا، حکم دیا کے ساتھ تعبیر فرمایا۔ ممکن ہے یہ شریعت نہایت سادہ عہد اور حکم پر مشتمل تھی جب کہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت کے لیے اَوۡحَیۡنَاۤ کی تعبیر اختیار فرمائی جو ایک جامع نظام حیات کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے۔

۴۔ وَ مَا وَصَّیۡنَا بِہٖۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰۤی: صاحبان شریعت اولوالعزم انبیاء علیہم السلام کا ذکر ہے:

i۔پہلے صاحب شریعت حضرت نوح علیہ السلام ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام تک حضرت نوح علیہ السلام کی شریعت پر عمل ہوتا رہا۔

ii۔ دوسرے صاحب شریعت حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام تک آپ ؑکی شریعت پر عمل ہوتا رہا۔

ii۔ تیسرے صاحب شریعت حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک آپ ؑکی شریعت پر عمل ہوتا رہا۔

iv۔ چوتھے صاحب شریعت حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت کے نفاذ تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شرعیت پر عمل ہوتا رہا۔

v۔ پانچویں صاحب شریعت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت خاتم الشرائع ہے اور ایک جامع نظام حیات ہونے کے اعتبار سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عظیم معجزہ ہے۔ جس میں عصر تشریع سے لے کر قیامت تک کے ثابت و متغیر تقاضوں کے عین مطابق نظام حیات ہے اور کسی گوشے کو تشنہ نہیں چھوڑا ہے۔

ہم نے سورہ احزاب آیت ۴۰ کے ذیل میں ان قوانین کا ذکر کیا ہے جو ایک جامع ضابطے کے تحت بدلتے ہوئے حالات کے مطابق ہو جاتے ہیں۔

یہاں حضرت آیت اللہ محسنی دام ظلہ کا وہ مکالمہ قابل ذکر ہے جو فرانس کے سفیر کے ساتھ ہوا تھا۔ فرماتے ہیں:

فرانس کے سفیر ایک دن میرے پاس آئے اور کہا ہم مسیحی کبھی یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ مسیحی حکومت قائم ہونی چاہیے۔ آپ لوگ اسلامی حکومت کا مطالبہ کیوں کرتے ہیں؟

آیۃ اللہ نے فرمایا:

آپ لوگوں کا مسیحی حکومت کا مطالبہ نہ کرنا صحیح ہے چونکہ آپ کے ہاں کوئی نظام حیات نہیں ہے جب کہ ہم اس ترقی یافتہ ترین گنجان ٹریفک کے سارے قوانین تک اپنے شرعی مصادر سے بیان کر سکتے ہیں۔

۵۔ اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ: اَنۡ تفسیری ہے۔ دین کا جو دستور اور شریعت حضرت نوح علیہ السلام سے شروع ہوئی اور نبی خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ختم ہوئی ان شریعتوں کے ذریعے دین قائم اور نافذ کر دیا جائے چونکہ دین کا نفاذ شریعت کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے۔

۶۔ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ: اقامۂ دین میں تفرقہ نہ ڈالنا۔ اقامۂ دین اور اس کا نفاذ، شریعت اور قانون پر عمل کرنے کی صورت ہو سکتا ہے تو اس قانون کے نفاذ اور اس پر عمل کی جب نوبت آتی ہے اس وقت اس میں اختلاف نہ کرو۔ سب مل کر اس کا نفاذ کریں۔ تفرقہ کی دوسری تفسیر یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دین کے نفاذ کی جب نوبت آتی ہے تو احکام کے نفاذ میں تفریق نہ کرو کہ کچھ کو نافذ کیا جائے اور کچھ نافذ نہ کیا جائے۔ جس طرح یہود و نصاریٰ نے کیا کہ اپنے مفادات سے متصادم احکام شریعت کو معطل کر دیا۔

۷۔ کَبُرَ عَلَی الۡمُشۡرِکِیۡنَ مَا تَدۡعُوۡہُمۡ اِلَیۡہِ: تمہارا توحید اور صرف ایک معبود کی عبادت کرنے کی دعوت دینا اور اور دیگر معبودوں کو مسترد کر دینا ان مشرکین کو ناگوار گزرا ہے۔ جن معبودوں کی وہ پشت در پشت پوجا کرتے آئے ہیں، آج انہیں باطل قرار دینے کی دعوت ان مشرکین کو نہایت گراں گزر ی ہے۔

۸۔ اَللّٰہُ یَجۡتَبِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ: اللہ ان لوگوں کو اپنی طرف جلب اور برگزیدہ کرتا ہے جو اس کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ان پر توحید نہ صرف شاق نہیں گزرے گی بلکہ وہ اس اللہ واحد کے عشق و محبت میں کیف و سرور کے عالم میں ہوتے ہیں۔


آیت 13