آیت 33
 

وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ﴿۳۳﴾

۳۳۔ اور اس شخص کی بات سے زیادہ کس کی بات اچھی ہو سکتی ہے جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا: میں مسلمانوں میں سے ہوں

تفسیر آیات

۱۔ وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا: اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو گویائی کی قوت عنایت فرمائی ہے اس کا سب سے بہترین مصرف دعوت الی اللّٰہ میں صرف ہونے والا قول ہے۔ اس آیت و دیگر احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ افضل ترین عبادت دعوت الی اللہ ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب حضرت علی علیہ السلام کو یمن کی طرف تبلیغ کے لیے روانہ کر رہے تھے اس موقع پر فرمایا:

وَ ایْمُ اللہِ لَاَنْ یَہْدِیَ اللہ! عَزَّوَجَلَّ عَلَی یَدَیْکَ رَجُلًا خَیْرً لَکَ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ۔۔۔۔ ( الکافی۵: ۲۸)

قسم بخدا! یہ بات کہ اللہ تیرے ہاتھ ایک آدمی کو بھی ہدایت دے دے، ہر اس چیز سے بہتر ہے جس پر سورج طلوع کرتا ہے۔

دعوت الی اللہ کے بھی مدارج ہیں۔ حضرت ختم المرسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے اعلیٰ و ارفع درجے پر فائز ہیں۔ پورے کرۂ ارض پر آپ ہی کی دعوت ابھی تک تیزی سے پھیل رہی ہے۔ آپ ؐ کے بعد آپ ؐکے جانشین ائمہ ہدیٰ علیہم السلام ان کے بعد وہ علماء جوامر بمعروف اور نہی از منکر کرتے ہیں۔ اس آخری درجے کا کیا درجہ ہے؟ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

وَ مَا اَعْمَالُ الْبِرِّ کُلُّھَا وَ الْجِھَادُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ عِنْدَ الْاَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّھْیِ عَنِ الْمُنْکَرِ اِلَّاکَنَفْثَۃٍ فِی بَحْرٍ لْجِّیٍ۔۔۔۔ (وسائل الشیعۃ ۱۶: ۱۳۴)

امر بمعروف اور نہی از منکر کے مقابلے میں تمام نیک اعمال اور جہاد فی سبیل اللہ کی حیثیت ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے مقابلے میں ایک چھوٹے قطرے کی سی ہے۔

۲۔ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ: اللہ کی عبادت کی طرف بلانے والا یہ داعی خود عابد بھی ہو۔ دعوت بلا عمل خود ایک انحراف ہے:

کَبُرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللّٰہِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ (۶۱ صف:۳)

اللہ کے نزدیک یہ بات سخت ناپسندیدہ ہے کہ تم وہ بات کہو جو کرتے نہیں ہو۔

لہٰذا اللہ کی طرف دعوت دینے والے کو قولاً و عملًا داعی ہونا چاہیے ورنہ صرف زبان ہلانے سے داعی نہیں بنتا۔ اس کے ایمان پر عمل کے علاوہ کوئی شاہد نہیں۔

۳۔ وَّ قَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ: اپنے کو تسلیم و رضا کی منزل پر فائز کرے یا مسلمانوں کی جماعت میں شمولیت کا اعلان کرے، ورنہ خود تسلیم و رضا کی منزل پر نہ ہو تو اس کی دعوت اپنے عمل سے متصادم ہو گی نیز انسان ایمان کی منزل پر ہو تو اس کے عمل کی قیمت بن جاتی ہے اور عمل سے اس کے ایمان کو ثبوت مل جاتا ہے۔ ان دونوں عناصر کی ترکیب کے بغیر انسان مؤمن نہیں بنتا۔


آیت 33