آیت 34
 

وَ لَا تَسۡتَوِی الۡحَسَنَۃُ وَ لَا السَّیِّئَۃُ ؕ اِدۡفَعۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ فَاِذَا الَّذِیۡ بَیۡنَکَ وَ بَیۡنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیۡمٌ﴿۳۴﴾

۳۴۔ اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتے، آپ (بدی کو) بہترین نیکی سے دفع کریں تو آپ دیکھ لیں گے کہ آپ کے ساتھ جس کی عداوت تھی وہ گویا نہایت قریبی دوست بن گیا ہے۔

تفسیر آیات

سابقہ آیت میں دعوت الی اللّٰہ کو بہترین گفتار قرار دینے کے بعد اس دعوت کو مؤثر بنانے کے لیے بہترین ذریعے کی نشاندہی فرمائی اور وہ یہ ہے: برائی کو نیکی سے دفع کرنا۔ جہالت کو علم اور بردباری، بد اخلاقی کو حسن اخلاق، گستاخی کو عفو درگزر سے، غرض بدسلوکی کو احسان سے دفع کرنا چاہیے۔

ہر انسان اپنی فطرت سے یہ سمجھ سکتا ہے کہ نیکی اور بدی یکساں نہیں، ان کے اثرات بھی یکساں نہیں ہوتے۔ نیکی کا اولین اثر یہ ہو گا کہ تمہارا جانی دشمن جگری دوست بن جائے گا کیونکہ اخلاق کی مار نہایت کارگر ثابت ہوتی ہے۔ آپ کا دشمن اگر ابتدا میں آپ کے موقف کے ساتھ عناد رکھتا ہے تاہم وہ بھی انسان ہے اس کا ضمیر اگر مردہ ہے تو آپ کا اخلاق اس میں روح پھونک سکتا ہے۔ اس نے اگر آپ کے مذہب کے بارے میں غلیظ الفاظ استعمال کیے ہیں تو آپ کا مہذب اور احترام آدمیت پر مبنی رد عمل اس غلاظت میں پھول اُگا سکتا ہے۔

چنانچہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی سیرت میں اس بات کے بہت سے شواہد ملتے ہیں۔ البتہ بعض انسان نما درندہ صفت لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے دل کسی بھی اخلاق حسنہ سے اثر پذیر نہیں ہوتے۔ چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر عمر بھر اسلام سے لڑنے والوں پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلق عظیم کارگر ثابت نہیں ہواحالانکہ انہیں توقع سے بہت زیادہ مراعات دی گئیں۔


آیت 34