اِذِ الۡاَغۡلٰلُ فِیۡۤ اَعۡنَاقِہِمۡ وَ السَّلٰسِلُ ؕ یُسۡحَبُوۡنَ ﴿ۙ۷۱﴾

۷۱۔ جب طوق اور زنجیریں ان کی گردنوں میں ہوں گی، گھسیٹے جا رہے ہوں گے،

فِی الۡحَمِیۡمِ ۬ۙ ثُمَّ فِی النَّارِ یُسۡجَرُوۡنَ ﴿ۚ۷۲﴾

۷۲۔ کھولتے پانی کی طرف، پھر آگ میں جھونک دیے جائیں گے ۔

ثُمَّ قِیۡلَ لَہُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ تُشۡرِکُوۡنَ ﴿ۙ۷۳﴾

۷۳۔ پھر ان سے پوچھا جائے گا: کہاں ہیں وہ جنہیں تم شریک ٹھہراتے تھے،

مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ قَالُوۡا ضَلُّوۡا عَنَّا بَلۡ لَّمۡ نَکُنۡ نَّدۡعُوۡا مِنۡ قَبۡلُ شَیۡئًا ؕ کَذٰلِکَ یُضِلُّ اللّٰہُ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۷۴﴾

۷۴۔ اللہ کو چھوڑ کر ؟ وہ کہیں گے: وہ تو ہم سے ناپید ہو گئے بلکہ ہم تو پہلے کسی چیز کو پکارتے ہی نہیں تھے، اسی طرح کفار کو اللہ گمراہ کر دیتا ہے۔

74۔ جو لوگ دنیا میں غیر اللہ کو پکارتے اور اوہام پرستی میں مبتلا تھے، کل قیامت کے دن انہیں پتہ چل جائے گا کہ یہ غیر اللہ اپنا وجود تک نہیں رکھتے تھے۔ اب ان کی سمجھ میں آئے گا کہ ہم دنیا میں ایک لا شئ کی پرستش کیا کرتے تھے۔

ذٰلِکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَفۡرَحُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ وَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَمۡرَحُوۡنَ ﴿ۚ۷۵﴾

۷۵۔ یہ (انجام) اس لیے ہوا کہ تم زمین میں حق کے برخلاف (باطل پر) خوش ہوتے تھے اور اس کا بدلہ ہے کہ تم اترایا کرتے تھے۔

75۔ فَرَحَ خوش ہونا اور مَرَحَ حد سے زیادہ خوش ہونا۔فَرَحَ اور وہ خوشی مذموم ہے جو آخرت کا انکار یا اسے فراموش کر کے صرف دنیا کی آسائشوں پر منائی جائے یا اہل حق کے خلاف از راہ تمسخر خوش ہوا جائے۔ ورنہ اللہ کی نعمتوں پر خوش ہونے میں نہ صرف کوئی حرج نہیں، بلکہ یہ خوشی اللہ کو پسند ہے۔ قُلۡ بِفَضۡلِ اللّٰہِ وَ بِرَحۡمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلۡیَفۡرَحُوۡا (یونس : 58)۔ کہ دیجیے یہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہے، پس انہیں چاہیے اس پر خوشی منائیں۔ جبکہ فَرَحَ اترانے کی مطلق ممانعت ہے، کیونکہ اترانے کی کوئی صورت مستحسن نہیں ہے۔

اُدۡخُلُوۡۤا اَبۡوَابَ جَہَنَّمَ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ۚ فَبِئۡسَ مَثۡوَی الۡمُتَکَبِّرِیۡنَ﴿۷۶﴾

۷۶۔ جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ جس میں تم ہمیشہ رہو گے، تکبر کرنے والوں کا کتنا برا ٹھکانا ہے۔

فَاصۡبِرۡ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ ۚ فَاِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعۡضَ الَّذِیۡ نَعِدُہُمۡ اَوۡ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِلَیۡنَا یُرۡجَعُوۡنَ﴿۷۷﴾

۷۷۔ پس آپ صبر کریں، یقینا اللہ کا وعدہ سچا ہے، اب انہیں ہم نے جو وعدہ (عذاب) دیا ہے اس میں سے کچھ حصہ ہم آپ کو (زندگی ہی میں) دکھا دیں یا آپ کو دنیا سے اٹھا لیں، بہرحال انہیں ہماری طرف پلٹ کر آنا ہے۔

77۔ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صبر کریں، چونکہ ان کافروں کے لیے جو وعدﮤ عذاب ہے وہ پورا ہو کر رہنا ہے۔ خواہ اس عذاب کا کچھ حصہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں ان پر آئے یا آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں یہ عذاب آنے سے پہلے ہم آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس دنیا سے اٹھا لیں۔ اس کا مفہوم یہ نکلتا ہے، عذاب تو ان پر بہرحال آنا ہے، آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی کے بعد ہی سہی۔

وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلًا مِّنۡ قَبۡلِکَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ قَصَصۡنَا عَلَیۡکَ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ لَّمۡ نَقۡصُصۡ عَلَیۡکَ ؕ وَ مَا کَانَ لِرَسُوۡلٍ اَنۡ یَّاۡتِیَ بِاٰیَۃٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ۚ فَاِذَا جَآءَ اَمۡرُ اللّٰہِ قُضِیَ بِالۡحَقِّ وَ خَسِرَ ہُنَالِکَ الۡمُبۡطِلُوۡنَ﴿٪۷۸﴾

۷۸۔ اور بتحقیق ہم نے آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے ہیں، ان میں سے بعض کے حالات ہم نے آپ سے بیان کیے ہیں اور بعض کے حالات آپ سے بیان نہیں کیے اور کسی پیغمبر کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی معجزہ پیش کرے، پھر جب اللہ کا حکم آگیا تو حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا گیا اور اس طرح اہل باطل خسارے میں پڑ گئے۔

78۔ معجزہ یعنی فیصلہ کن اقدام۔ امت کی طرف سے مطالبے پر معجزہ دکھانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ فیصلہ کن اقدام کیا جائے۔ یعنی ان کے مطالبے کے مطابق معجزہ دکھانے کے بعد اگر ایمان نہ لائیں تو فوری طور پر تباہی آ جائے۔ لہٰذا معجزے کا مطالبہ کرنے والے خود اپنی تباہی کا مطالبہ کر رہے ہوتے ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ ہے کہ ہنوز انہیں ڈھیل دی جائے۔

اَللّٰہُ الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الۡاَنۡعَامَ لِتَرۡکَبُوۡا مِنۡہَا وَ مِنۡہَا تَاۡکُلُوۡنَ ﴿۫۷۹﴾

۷۹۔ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے چوپائے بنائے تاکہ تم ان میں سے بعض پر سواری کرو اور بعض کا گوشت کھاؤ۔

79۔ اللہ نے حیوانات کو انسان کے لیے مسخر بنایا ہے۔ چنانچہ انسان حیوانات پر سواری کرتا ہے، باربرداری کا کام لیتا ہے، ان سے دودھ گوشت حاصل کرتا ہے، ان کی کھال بال اون اور گوبر تک سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ جس انسان کو اللہ تعالیٰ نے ان حیوانات کا مخدوم بنایا ہے، وہ الٹا حیوانات کو مخدوم بنا لیتا ہے اور گاؤ پرستی جیسی حیوان پرستی اختیار کر کے اپنی انسانی اقدار کو پامال کرتا ہے۔ قُتِلَ الۡاِنۡسَانُ مَاۤ اَکۡفَرَہٗ (عبس: 17)۔ مردہ باد یہ انسان۔ کس قدر ناشکرا ہے!

وَ لَکُمۡ فِیۡہَا مَنَافِعُ وَ لِتَبۡلُغُوۡا عَلَیۡہَا حَاجَۃً فِیۡ صُدُوۡرِکُمۡ وَ عَلَیۡہَا وَ عَلَی الۡفُلۡکِ تُحۡمَلُوۡنَ ﴿ؕ۸۰﴾

۸۰۔ اور تمہارے لیے ان میں منفعت ہے اور تاکہ تمہارے دلوں میں (کہیں جانے کی) حاجت ہو تو ان پر (سوار ہو کر) پہنچ جاؤ نیز ان پر اور کشتیوں پر تم سوار کیے جاتے ہو۔