اَللّٰہُ الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الَّیۡلَ لِتَسۡکُنُوۡا فِیۡہِ وَ النَّہَارَ مُبۡصِرًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَذُوۡ فَضۡلٍ عَلَی النَّاسِ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَشۡکُرُوۡنَ﴿۶۱﴾

۶۱۔ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی کہ تم اس میں آرام کرو اور دن کو روشن بنایا، اللہ لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔

ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمۡ خَالِقُ کُلِّ شَیۡءٍ ۘ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۫ۚ فَاَنّٰی تُؤۡفَکُوۡنَ﴿۶۲﴾

۶۲۔ یہی اللہ تمہارا رب ہے جو ہر چیز کا خالق ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، پھر تم کہاں بھٹک رہے ہو؟

کَذٰلِکَ یُؤۡفَکُ الَّذِیۡنَ کَانُوۡا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ یَجۡحَدُوۡنَ﴿۶۳﴾

۶۳۔ اسی طرح وہ لوگ بھی بھٹکتے رہے جو اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے۔

اَللّٰہُ الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ الۡاَرۡضَ قَرَارًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً وَّ صَوَّرَکُمۡ فَاَحۡسَنَ صُوَرَکُمۡ وَ رَزَقَکُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ ؕ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمۡ ۚۖ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۶۴﴾

۶۴۔ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو جائے قرار اور آسمان کو عمارت بنایا اور اسی نے تمہاری صورت بنائی تو بہترین صورت بنائی اور تمہیں پاکیزہ رزق دیا، یہی اللہ تمہارا رب ہے، پس بابرکت ہے وہ اللہ جو عالمین کا رب ہے۔

64۔ آیت میں دو باتوں کی طرف اشارہ ہے۔ ایک یہ کہ اللہ نے زمین کو اس طرح بنایا کہ انسانی زندگی کے لیے بہترین جائے قرار بن جائے اور آسمان کا گنبد اس طرح بنایا کہ انسان زمین پر آسمانی آفتوں سے محفوظ رہے۔ دوسری بات یہ کہ خود انسان کی تصویر کشی اس طرح کی کہ وہ کائنات کی ہر چیز کو مسخر کر سکے نیز اللہ نے انسان کی صورت بنائی تو بڑی ہی عمدہ بنائی کہ ہر شے انسان کے لیے مسخر ہو اور انسان کسی کے لیے مسخر نہ ہو۔

پھر فرمایا: وَ رَزَقَکُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ اور تمہیں پاکیزہ رزق دیا۔ پھر فرمایا: ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمۡ ، یہی اللہ تمہارا رب ہے، جس نے تمہاری صورت بنائی اور تم کو رزق دیا۔ وہی تمہارا رب ہے۔ اس سے رب کی تعریف نکل آئی۔

ہُوَ الۡحَیُّ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ فَادۡعُوۡہُ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ؕ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۶۵﴾

۶۵۔ وہی زندہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں لہٰذا تم دین کو اس کے لیے خالص کر کے اسی کو پکارو، ثنائے کامل ہے اس اللہ کے لیے جو عالمین کا رب ہے۔

65۔ پکارنا اسی کو چاہیے جو ہمیشہ زندہ ہو، نہ وہ غافل ہو، نہ اسے نیند آتی ہو۔ ہر زندہ کی زندگی اللہ کی طرف سے ہے، لیکن اللہ بذات خود زندہ ہے۔ یعنی اللہ خود حیات سے عبارت ہے۔ خود حیات کے بارے میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ وہ کہاں سے آئی۔ چار کا وجود ہے یا نہیں؟ سوال پیدا ہوتا ہے۔ لیکن چار ہے، تو یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ اس کے اندر جفت کہاں سے آیا؟ کیونکہ جب چار ہے تو وہ بذات خود جفت ہے۔

قُلۡ اِنِّیۡ نُہِیۡتُ اَنۡ اَعۡبُدَ الَّذِیۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ لَمَّا جَآءَنِیَ الۡبَیِّنٰتُ مِنۡ رَّبِّیۡ ۫ وَ اُمِرۡتُ اَنۡ اُسۡلِمَ لِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۶۶﴾

۶۶۔ کہدیجئے: مجھے اس بات سے روک دیا گیا ہے کہ میں ان کی عبادت کروں جنہیں تم اللہ کے علاوہ پکارتے ہو جب کہ میرے پاس میرے رب کی طرف سے واضح دلائل آچکے ہیں اور مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ میں رب العالمین کا تابع فرمان رہوں۔

66۔ دلیل کے بغیر نہ کوئی بات مانی جاتی ہے، نہ رد ہو سکتی ہے اور دلیل آنے کے بعد وہ بات ترک نہیں ہو سکتی۔

ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ تُرَابٍ ثُمَّ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ ثُمَّ مِنۡ عَلَقَۃٍ ثُمَّ یُخۡرِجُکُمۡ طِفۡلًا ثُمَّ لِتَبۡلُغُوۡۤا اَشُدَّکُمۡ ثُمَّ لِتَکُوۡنُوۡا شُیُوۡخًا ۚ وَ مِنۡکُمۡ مَّنۡ یُّتَوَفّٰی مِنۡ قَبۡلُ وَ لِتَبۡلُغُوۡۤا اَجَلًا مُّسَمًّی وَّ لَعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ﴿۶۷﴾

۶۷۔ وہ وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے پھر لوتھڑے سے پھر تمہیں بچے کی صورت میں پیدا کرتا ہے پھر (تمہاری نشوونما کرتا ہے) تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچ جاؤ پھر (تمہیں مزید زندگی دیتا ہے) تاکہ تم بڑھاپے کو پہنچ پاؤ اور تم میں سے کوئی تو پہلے ہی مر جاتا ہے اور (بعض کو مہلت ملتی ہے) تاکہ تم اپنے مقررہ وقت کو پہنچ جاؤ اور تاکہ تم عقل سے کام لو۔

67۔ یعنی کوئی تو اپنی طبعی عمر پوری کر لیتا ہے اور کوئی طبعی عمر پوری کرنے سے پہلے مر جاتا ہے۔ مقررہ وقت وہ ہوتا ہے جس میں تغیر و تبدل کا امکان نہیں ہوتا، خواہ کتنی لمبی عمر کیوں نہ گزاری جائے۔ مقررہ وقت تک تم کو زندگی اس لیے دی جاتی ہے کہ تم اپنے انسانی مقام پر فائز ہونے کے لحاظ سے عقل سے کام لو، بصورت دیگر تمہاری اور جانوروں کی زندگی میں کیا فرق رہ جائے گا؟

ہُوَ الَّذِیۡ یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ ۚ فَاِذَا قَضٰۤی اَمۡرًا فَاِنَّمَا یَقُوۡلُ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ﴿٪۶۸﴾

۶۸۔ وہی تو ہے جو زندگی دیتا ہے اور وہی موت بھی دیتا ہے پھر جب وہ کسی امر کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اس سے صرف یہ کہتا ہے: ہو جا! پس وہ ہو جاتا ہے۔

68۔ جب زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور جب کسی چیز کی ایجاد کے لیے صرف اللہ کا ایک فیصلہ کافی ہے تو اس کے لیے اعادﮤ حیات میں کون سی رکاوٹ پیش آئے گی۔

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ یُجَادِلُوۡنَ فِیۡۤ اٰیٰتِ اللّٰہِ ؕ اَنّٰی یُصۡرَفُوۡنَ ﴿ۖۛۚ۶۹﴾

۶۹۔ کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اللہ کی آیات کے بارے میں جھگڑتے ہیں؟ یہ لوگ کہاں پھرے جاتے ہیں؟

الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِالۡکِتٰبِ وَ بِمَاۤ اَرۡسَلۡنَا بِہٖ رُسُلَنَا ۟ۛ فَسَوۡفَ یَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۷۰﴾

۷۰۔ جنہوں نے اس کتاب کی اور جو کچھ ہم نے پیغمبروں کو دے کر بھیجا ہے اس کی تکذیب کی ہے، انہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا۔

70۔ اس کتاب سے مراد قرآن ہی ہو سکتا ہے۔ قرآن کی تکذیب کے انجام سے عنقریب آگاہ ہو جائیں گے، جب وہ جہنم کے عذاب میں مبتلا ہوں گے۔