وَ یُرِیۡکُمۡ اٰیٰتِہٖ ٭ۖ فَاَیَّ اٰیٰتِ اللّٰہِ تُنۡکِرُوۡنَ﴿۸۱﴾

۸۱۔ اور وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے پس تم اس کی کن کن نشانیوں کا انکار کرو گے۔

81۔ توحید و آخرت پر موجود نشانیوں کے باوجود تم اور کس نشانی کی توقع رکھتے ہو۔

اَفَلَمۡ یَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَیَنۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ؕ کَانُوۡۤا اَکۡثَرَ مِنۡہُمۡ وَ اَشَدَّ قُوَّۃً وَّ اٰثَارًا فِی الۡاَرۡضِ فَمَاۤ اَغۡنٰی عَنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ﴿۸۲﴾

۸۲۔ کیا وہ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ انہیں ان لوگوں کا انجام نظر آتا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں؟ وہ تعداد میں ان سے کہیں زیادہ تھے نیز طاقت اور زمین میں (اپنے) آثار چھوڑنے میں بھی ان سے زیادہ تھے، (اس کے باوجود) جو کچھ انہوں نے کیا وہ ان کے کچھ بھی کام نہ آیا۔

82۔ قرآن درس عبرت حاصل کرنے کے لیے ارضی مطالعہ کو نہایت اہمیت دیتا ہے، جس سے طاغوتوں اور ظالموں کے انجام کا بخوبی علم ہوتا ہے۔ اسی سورہ میں آیت 21 ملاحظہ فرمائیں۔ وہی مضمون یہاں دوبارہ بیان فرمایا ہے۔

فَلَمَّا جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَرِحُوۡا بِمَا عِنۡدَہُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ وَ حَاقَ بِہِمۡ مَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ﴿۸۳﴾

۸۳۔ پھر جب ان کے پیغمبر واضح دلائل کے ساتھ ان کے پاس آئے تو وہ اس علم پر نازاں تھے جو ان کے پاس تھا، پھر انہیں اس چیز نے گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔

83۔ علوم انبیاء علیہ السلام کے مقابلے میں وہ اپنے دنیاوی علوم اور مفروضوں پر ناز کرتے ہیں۔ یَعۡلَمُوۡنَ ظَاہِرًا مِّنَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۔ (روم:7) آج بھی ہم یہی مشاہدہ کرتے ہیں کہ سائنسی باتیں خواہ ابھی تھیوری کے مرحلے میں ہی کیوں نہ ہوں، لوگوں میں علوم انبیاء سے زیادہ قابل توجہ ہوتی ہیں، بلکہ دینی علوم کا مزاح اڑاتی ہیں۔

فَلَمَّا رَاَوۡا بَاۡسَنَا قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَحۡدَہٗ وَ کَفَرۡنَا بِمَا کُنَّا بِہٖ مُشۡرِکِیۡنَ﴿۸۴﴾

۸۴۔ پھر جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو کہنے لگے: ہم خدائے واحد پر ایمان لاتے ہیں اور جسے ہم اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے تھے اس کا انکار کرتے ہیں۔

فَلَمۡ یَکُ یَنۡفَعُہُمۡ اِیۡمَانُہُمۡ لَمَّا رَاَوۡا بَاۡسَنَا ؕ سُنَّتَ اللّٰہِ الَّتِیۡ قَدۡ خَلَتۡ فِیۡ عِبَادِہٖ ۚ وَ خَسِرَ ہُنَالِکَ الۡکٰفِرُوۡنَ﴿٪۸۵﴾

۸۵۔ لیکن ہمارا عذاب دیکھ لینے کے بعد ان کا ایمان ان کے لیے فائدہ مند نہیں رہے گا، یہ اللہ کی سنت ہے جو اس کے بندوں میں چلی آ رہی ہے اور اس وقت کفار خسارے میں پڑ گئے۔

84۔ 85 جب عذاب کا مشاہدہ ہو گا تو سارے پردے ہٹ چکے ہوں گے۔ حقائق سامنے آ گئے ہوں گے۔ اس وقت ایمان لے آنا ایک قہری امر ہے۔ اس قہری ایمان کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

تمام بندوں کے لیے بلا استثنا اللہ کا دستور یہ ہے کہ موت سامنے آنے اور عذاب کا مشاہدہ کرنے کے بعد نہ تو توبہ قبول ہو گی، نہ ایمان کا کوئی فائدہ ہو گا۔