یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لِمَ تَلۡبِسُوۡنَ الۡحَقَّ بِالۡبَاطِلِ وَ تَکۡتُمُوۡنَ الۡحَقَّ وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ﴿٪۷۱﴾

۷۱۔ اے اہل کتاب! تم جان بوجھ کر حق کو باطل کے ساتھ کیوں خلط کرتے ہو اور حق کو چھپاتے ہو؟

وَ قَالَتۡ طَّآئِفَۃٌ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ اٰمِنُوۡا بِالَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ عَلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَجۡہَ النَّہَارِ وَ اکۡفُرُوۡۤا اٰخِرَہٗ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ ﴿ۚۖ۷۲﴾

۷۲۔ اور اہل کتاب کا ایک گروہ (آپس میں) کہتا ہے : ایمان لانے والوں پر جو کتاب نازل ہوئی ہے اس پر صبح ایمان لاؤ اور شام کو انکار کر دو شاید وہ (مسلمان) برگشتہ ہو جائیں۔

72۔ حق کی ایک اہم علامت یہ ہے کہ ایک بار اس کی معرفت حاصل ہونے کے بعد لوگ اس سے برگشتہ نہیں ہوتے۔ جیسا کہ ہرقل بادشاہ کو جب حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے دعوتِ اسلام ملی تو اس نے پوچھا: کیا اس رسول پر ایمان لانے والے برگشتہ ہو جاتے ہیں؟ جواب دیا گیا: ایسا کبھی نہیں ہوا۔

وَ لَا تُؤۡمِنُوۡۤا اِلَّا لِمَنۡ تَبِعَ دِیۡنَکُمۡ ؕ قُلۡ اِنَّ الۡہُدٰی ہُدَی اللّٰہِ ۙ اَنۡ یُّؤۡتٰۤی اَحَدٌ مِّثۡلَ مَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ اَوۡ یُحَآجُّوۡکُمۡ عِنۡدَ رَبِّکُمۡ ؕ قُلۡ اِنَّ الۡفَضۡلَ بِیَدِ اللّٰہِ ۚ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿ۚۙ۷۳﴾

۷۳۔ اور (یہ لوگ آپس میں کہتے ہیں) اپنے دین کے پیروکاروں کے سوا کسی کی بات نہ مانو، کہدیجئے: ہدایت تو بے شک وہ ہے جو اللہ کی طرف سے ہو، (لیکن اہل کتاب باہم یہ کہتے ہیں:) کہیں ایسا نہ ہو جیسی چیز تمہیں ملی ہے ویسی کسی اور کو مل جائے یا وہ تمہارے رب کے حضور تمہارے خلاف حجت قائم کر لیں، ان سے کہدیجئے: فضل تو بے شک اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے عطا فرمائے، اور اللہ بڑی وسعت والا، جاننے والا ہے۔

73۔ یہودی حسد کی آگ میں جلتے تھے کہ اللہ نے ان کے علاوہ کسی اور قوم کو نبوت اور کتاب سے کیوں نوازا ہے۔ وہ طرح طرح کی خفیہ سازشیں کرتے تھے۔ ساتھ ہی اس بات سے گھبراتے بھی تھے کہ کہیں مسلمانوں کے ہاتھ کوئی حجت اور دلیل نہ آ جائے، اس طرح کہیں وہ اللہ کے سامنے ماخوذ نہ ہوں۔

یَّخۡتَصُّ بِرَحۡمَتِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ﴿۷۴﴾

۷۴۔ وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت سے مختص کرتا ہے اور اللہ عظیم فضل والا ہے۔

وَ مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ مَنۡ اِنۡ تَاۡمَنۡہُ بِقِنۡطَارٍ یُّؤَدِّہٖۤ اِلَیۡکَ ۚ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ اِنۡ تَاۡمَنۡہُ بِدِیۡنَارٍ لَّا یُؤَدِّہٖۤ اِلَیۡکَ اِلَّا مَادُمۡتَ عَلَیۡہِ قَآئِمًا ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَالُوۡا لَیۡسَ عَلَیۡنَا فِی الۡاُمِّیّٖنَ سَبِیۡلٌ ۚ وَ یَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ﴿۷۵﴾

۷۵۔ اور اہل کتاب میں کوئی ایسا بھی ہے کہ اگر آپ اسے ڈھیر دولت کا امین بنا دیں تو وہ آپ کو لوٹا دے گا، البتہ ان میں کوئی ایسا بھی ہے جسے اگر آپ ایک دینار کا بھی امین بنا دیں تو وہ آپ کو ادا نہیں کرے گا جب تک آپ اس کے سر پر کھڑے نہ رہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں: ناخواندہ (غیر یہودی) لوگوں کے بارے میں ہم پر کوئی ذمے داری نہیں ہے اور وہ جان بوجھ کر اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں۔

75۔ یہودی آج بھی اپنی قوم کو اللہ کی برگزیدہ قوم خیال کرتے ہیں اور پوری انسانیت کو اپنی سیادت و قیادت کے تابع سمجھتے ہیں۔ لہٰذا وہ کسی غیر یہودی کے لیے انسانی اور اخلاقی حقوق کے قائل نہیں ہیں۔ وہ غیر یہود کو ناخواندہ قوم کہکر ان کے لیے تمام انسانی حقوق کے منکر ہیں۔ ان کے نزدیک کسی غیر یہودی کی جان و مال محترم نہیں ہے۔ یہودیوں کی یہ بدعملی اور خیانت کاری صرف ان کے عملی کردار تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ بدعملی اور خیانت یہودیوں کی مذہبی تعلیم، یہودیت کے دستور و ضابطۂ حیات اور ان کی اخلاقیات کا حصہ بھی ہے۔ بطور مثال اگر کسی اسرائیلی کا بیل کسی غیر اسرائیلی کے بیل کو زخمی کر دے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہے، لیکن اگر کسی غیر اسرائیلی کا بیل کسی اسرائیلی کے بیل کو زخمی کرے تو اس پر تاوان ہے۔ (تلمود) اس پر طرہ یہ کہ نسلی امتیاز و تفریق پر مبنی اس حکم کو اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ لہٰذا یہود اپنے اخلاقیاتی نظریات کے تحت امین نہیں ہیں۔ تاہم بعض یہودی امین ہو سکتے ہیں، کیونکہ یہ بات خارج از امکان نہیں ہے کہ ایک یہودی کے فطری تقاضے ان کی خیانت پر مبنی اخلاقیات پر غالب آ جائیں اور امین بن جائے۔ چونکہ یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ تمام انبیاء کی تعلیمات میں ادائے امانت کو انتہائی اہمیت حاصل ہے، حتیٰ کہ یہ بات کسی دیانت اور مذہب سے بھی بالاتر ایک انسانی مسئلہ ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے: ثَلَاثَۃٌ لَا عُذْرَ لاَِحَدٍ فِیْھَا اَدَائُ الْاَمَانَۃِ اِلَی الْبَرِّ وَ الْفَاجِرِ وَ الْوَفَائُ باِلْعَھْدِ اِلَی الْبَرِّ وَ الْفَاجِرِ وَ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ بَرَّیْنِ کَانَا اَوْ فَاجِرَیْنِ ۔ (الکافی 5: 132) تین چیزوں کے بارے میں کسی کے لیے عذر کی گنجائش نہیں ہے۔ ادائے امانت، اچھے آدمی کی ہو یا برے آدمی کی۔ والدین کے ساتھ احسان، دونوں نیک ہو یا برے۔ وفا بعہد، اچھے آدمی کے ساتھ ہو یا برے آدمی کے ساتھ۔

بَلٰی مَنۡ اَوۡفٰی بِعَہۡدِہٖ وَ اتَّقٰی فَاِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَّقِیۡنَ﴿۷۶﴾

۷۶۔ہاں!(حکم خدا تو یہ ہے کہ) جو بھی اپنا عہد پورا کرے اور تقویٰ اختیار کرے تو اللہ تقویٰ والوں کو یقینا دوست رکھتا ہے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ یَشۡتَرُوۡنَ بِعَہۡدِ اللّٰہِ وَ اَیۡمَانِہِمۡ ثَمَنًا قَلِیۡلًا اُولٰٓئِکَ لَا خَلَاقَ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ وَ لَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ وَ لَا یَنۡظُرُ اِلَیۡہِمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ وَ لَا یُزَکِّیۡہِمۡ ۪ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۷۷﴾

۷۷۔بے شک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے اور اللہ قیامت کے دن ان سے نہ تو کلام کرے گا اور نہ ان کی طرف نگاہ کرے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

وَ اِنَّ مِنۡہُمۡ لَفَرِیۡقًا یَّلۡوٗنَ اَلۡسِنَتَہُمۡ بِالۡکِتٰبِ لِتَحۡسَبُوۡہُ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ مَا ہُوَ مِنَ الۡکِتٰبِ ۚ وَ یَقُوۡلُوۡنَ ہُوَ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ وَ مَا ہُوَ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ۚ وَ یَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ﴿۷۸﴾

۷۸۔اور (اہل کتاب میں) یقینا کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو کتاب پڑھتے ہوئے اپنی زبان کو اس طرح پھیرتے ہیں کہ تمہیں یہ خیال گزرے کہ یہ خود کتاب کی عبارت ہے حالانکہ وہ کتاب سے متعلق نہیں اور وہ کہتے ہیں: یہ اللہ کی جانب سے ہے حالانکہ یہ اللہ کی جانب سے نہیں ہوتی اور وہ جان بوجھ کر اللہ کی طرف جھوٹی نسبت دیتے ہیں۔

78۔ شان نزول: یہود و نصاریٰ کے ان لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی جو توریت و انجیل میں تحریف کرتے تھے اور کتاب خدا میں الٹ پھیر کرتے تھے۔ کچھ مواد کتاب خدا پر اپنی طرف سے اضافہ کرتے تھے۔ کتاب خدا کا وہ حصہ جو دین اسلام سے متعلق تھا، حذف کرتے تھے۔(مجمع البیان ذیل آیہ)

مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنۡ یُّؤۡتِیَہُ اللّٰہُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحُکۡمَ وَ النُّبُوَّۃَ ثُمَّ یَقُوۡلَ لِلنَّاسِ کُوۡنُوۡا عِبَادًا لِّیۡ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ لٰکِنۡ کُوۡنُوۡا رَبّٰنِیّٖنَ بِمَا کُنۡتُمۡ تُعَلِّمُوۡنَ الۡکِتٰبَ وَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَدۡرُسُوۡنَ ﴿ۙ۷۹﴾

۷۹۔ کسی انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اللہ تو اسے کتاب، حکمت اور نبوت عطا فرمائے پھر وہ لوگوں سے کہے:اللہ کی بجائے میرے بندے بن جاؤ بلکہ (وہ تو یہ کہے گا:) جو تم (اللہ کی) کتاب کی تعلیم دیتے ہو اور جو کچھ پڑھتے ہو اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم سچے ربانی بن جاؤ۔

79۔ بشر: انسانی جلد کو بشرۃ کہتے ہیں۔ اسی سے انسان کو بشر کہا گیا ہے کہ اس کی جلد بالوں سے صاف ہے اور بشر چونکہ باہمی انس اور میل جول کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتا اس لیے اسے انسان کہا گیا ہے، یعنی مانوس مخلوق۔ قرآن کے نزدیک بھی انسان اور بشر مترادف الفاظ ہیں۔ ربانی: علم کی پرورش کرنے والے۔ بعض نے کہا ہے: یہ رب کی طرف منسوب ہے یعنی اللہ والا۔ حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے : انا ربانی ھذہ الامۃ۔ میں اس امت کا عالم ربّانی ہوں۔

روئے سخن نصرانیوں کی طرف ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہ تو رب تھے اور نہ ہی انہوں نے اپنے لیے ربوبیت کا دعویٰ کیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا (نعوذباللہ) ربوبیت کا دعویٰ کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ کیونکہ اولاً تو وہ بشر ہیں اور بشر مخلوق ہے، رب نہیں ہے۔ معبود کے لیے ضروری ہے کہ محتاج نہ ہو۔کیونکہ اگر وہ محتاج ہے تو کوئی محتاج، اسے کیسے معبود بنائے گا جو خود محتاج ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کتاب کی تعلیم دینے کی جو ذمہ داری انجام دی ہے اس کا نتیجہ توحید ہے نہ کہ شرک۔ کیونکہ توریت ہو یا انجیل تمام آسمانی کتب کی تعلیمات توحید پر استوار ہیں۔ لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ جس نبی نے توریت و انجیل کی تعلیم و تدریس کی ہو وہ شرک باللہ کا حکم دے؟۔

وَ لَا یَاۡمُرَکُمۡ اَنۡ تَتَّخِذُوا الۡمَلٰٓئِکَۃَ وَ النَّبِیّٖنَ اَرۡبَابًا ؕ اَیَاۡمُرُکُمۡ بِالۡکُفۡرِ بَعۡدَ اِذۡ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ﴿٪۸۰﴾

۸۰۔ اور وہ تمہیں فرشتوں اور پیغمبروں کو رب بنانے کا حکم نہیں دے گا، کیا (ایک نبی) تمہیں مسلمان ہو جانے کے بعد کفر اختیار کرنے کا حکم دے سکتا ہے؟