آیت 79
 

مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنۡ یُّؤۡتِیَہُ اللّٰہُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحُکۡمَ وَ النُّبُوَّۃَ ثُمَّ یَقُوۡلَ لِلنَّاسِ کُوۡنُوۡا عِبَادًا لِّیۡ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ لٰکِنۡ کُوۡنُوۡا رَبّٰنِیّٖنَ بِمَا کُنۡتُمۡ تُعَلِّمُوۡنَ الۡکِتٰبَ وَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَدۡرُسُوۡنَ ﴿ۙ۷۹﴾

۷۹۔ کسی انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اللہ تو اسے کتاب، حکمت اور نبوت عطا فرمائے پھر وہ لوگوں سے کہے:اللہ کی بجائے میرے بندے بن جاؤ بلکہ (وہ تو یہ کہے گا:) جو تم (اللہ کی) کتاب کی تعلیم دیتے ہو اور جو کچھ پڑھتے ہو اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم سچے ربانی بن جاؤ۔

تشریح کلمات

بَشَر:

( ب ش ر ) انسانی جلد کو بشرۃ کہتے ہیں۔انسان یعنی مانوس مخلوق۔ انسان اور بشر مترادف الفاظ ہیں۔ چنانچہ حضرت آدم (ع) کے بارے میں فرمایا: میں مٹی سے بشر پیدا کرنے والا ہوں اور سورہ حجر میں انسان کے بارے میں کہا:

وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ ﴿﴾ (۱۵ حجر: ۲۶)

بتحقیق ہم نے انسان کو سڑے ہوئے گارے سے تیار شدہ خشک مٹی سے پیدا کیا۔

ربانی:

( ر ب ب ) علم کی پرورش کرنے والا۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ رب کی طرف منسوب ہے۔ یعنی اللہ والا۔ حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے: انا ربانی ھذہ الامۃ۔ (مفردات راغب۔ مادہ ر ب ب) میں اس امت کا عالم ربانی ہوں۔ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی روایت ہے۔ عَلِیٌّ رَبَّّانِیُّ ھَذِہِ اْلُاَّمِۃ (بحار الانوار ۴۰: ۱۶۰)۔ علی اس امت کے ربانی ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ لفظ سریانی ہے اور اس سے مراد ہے اللہ والا۔ جیسے رِبِّيُّوْنَ كَثِيْرٌ۔۔۔۔ (۳ آل عمران: ۱۴۶)

تَدۡرُسُوۡنَ:

( د ر س ) درس، تجربے اور مشق سے عبارت ہے۔ درست الحوادث فلانا۔ فلاں کو حادثات نے تجربے سکھا دیے۔ درست الکتاب سے مراد ہے، کتاب کو حفظ کر کے اس کا اثر لیا اور یہ مسلسل پڑھنے سے ہی حاصل ہوتا ہے، اس لیے مسلسل پڑھنے کو درس کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

اب روئے سخن نصرانیوں کی طرف ہے کہ حضرت عیسیٰ (ع) نہ تو رب تھے اور نہ ہی انہوں نے اپنے لیے ربوبیت کا دعویٰ کیا۔ حضرت عیسیٰ(ع) کا (نعوذباللّٰہ) ربوبیت کا دعویٰ کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ کیونکہ اولاً تو وہ بشر ہیں اور بشر مخلوق ہے، رب نہیں ہے۔ معبود کے لیے ضروری ہے کہ محتاج نہ ہو۔ کیونکہ اگر وہ محتاج ہے تو کوئی اس محتاج کی عبادت کیوں کرے؟

ثانیاً: جب اس بشر کو اللہ نے علم و حکمت عطا کی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے یقین اور علم کے خلاف فیصلہ کرے۔ کیونکہ اس انسان کو علم قطعی ہے کہ اللہ کی ذات نے علم و حکمت عطا کی ہے۔ لہٰذا اس ذات سے بغاوت کر کے انسانوں کو اپنی بندگی کی دعوت دینا اس کے لیے ممکن نہیں ہے۔

ثالثاً: اَللّٰہُ اَعۡلَمُ حَیۡثُ یَجۡعَلُ رِسَالَتَہٗ ۔۔۔۔ (۶ انعام:۱۲۴) اللہ بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کہاں رکھے۔

لہٰذاکیسے ممکن ہے کہ اس شخص میں نبوت و رسالت کی اہلیت بھی ہو اور دوسری طرف سے وہ شرک کی بھی دعوت دے۔ کیونکہ اگر وہ شرک کی دعوت دے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ (نعوذ باللّٰہ) اللہ نے لا علمی میں ایک نااہل کو رسالت کی ذمہ داری سونپ دی۔

حضرت عیسیٰ(ع) نے کتاب کی تعلیم دینے کی جو ذمہ داری انجام دی ہے، اس کا نتیجہ توحید ہے، نہ کہ شرک۔ کیونکہ توریت ہو یا انجیل، تمام آسمانی کتب کی تعلیمات توحید پر استوار ہیں۔ لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ جس نبی نے توریت و انجیل کی تعلیم و تدریس کی ہو، وہ شرک باللہ کا حکم دے؟

وَ لٰکِنۡ کُوۡنُوۡا رَبّٰنِیّٖنَ: بلکہ وہ نبی تو حکم دے گا کہ ربانی بن جاؤ یعنی رب والا بن جاؤ۔ ایک رب کی بندگی کی دعوت دے گا شرک کی نہیں۔ حضرت علیؑ سے روایت ہے، آپ (ع)نے فرمایا:

کونوا علماء فقھاء

عالم اور فقیہ بن جاؤ۔ (مجمع البیان)

بِمَا کُنۡتُمۡ تُعَلِّمُوۡنَ الۡکِتٰبَ: تعلیم کتاب کا لازمہ یہ ہونا چاہیے کہ انسان اللہ کی توحید کو سمجھے اور لوگوں کو بھی توحید کی طرف بلائے، کیونکہ علم کا لازمہ عمل ہے۔ چونکہ ہر چیز جو اس کا متعلقہ نتیجہ نہ دے، اس کی مذمت ہوئی ہے، لہٰذا جس علم کا عمل کی شکل میں کوئی نتیجہ نہ ہو، وہ علم قابل مذمت ہے۔

وَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَدۡرُسُوۡنَ: جس درس توحید کو تم نے مسلسل پڑھا ہے اور بار بار اس دہرایا ہے، اس کا تقاضا یہ ہے کہ ربانی ہو۔

اہم نکات

۱۔ علم و حکمت کی صحیح رعایت کا نتیجہ شرک نہیں،بلکہ توحید ہے۔


آیت 79