حضرت عیسیٰ ؑکی حقیقت


مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنۡ یُّؤۡتِیَہُ اللّٰہُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحُکۡمَ وَ النُّبُوَّۃَ ثُمَّ یَقُوۡلَ لِلنَّاسِ کُوۡنُوۡا عِبَادًا لِّیۡ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ لٰکِنۡ کُوۡنُوۡا رَبّٰنِیّٖنَ بِمَا کُنۡتُمۡ تُعَلِّمُوۡنَ الۡکِتٰبَ وَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَدۡرُسُوۡنَ ﴿ۙ۷۹﴾

۷۹۔ کسی انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اللہ تو اسے کتاب، حکمت اور نبوت عطا فرمائے پھر وہ لوگوں سے کہے:اللہ کی بجائے میرے بندے بن جاؤ بلکہ (وہ تو یہ کہے گا:) جو تم (اللہ کی) کتاب کی تعلیم دیتے ہو اور جو کچھ پڑھتے ہو اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم سچے ربانی بن جاؤ۔

79۔ بشر: انسانی جلد کو بشرۃ کہتے ہیں۔ اسی سے انسان کو بشر کہا گیا ہے کہ اس کی جلد بالوں سے صاف ہے اور بشر چونکہ باہمی انس اور میل جول کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتا اس لیے اسے انسان کہا گیا ہے، یعنی مانوس مخلوق۔ قرآن کے نزدیک بھی انسان اور بشر مترادف الفاظ ہیں۔ ربانی: علم کی پرورش کرنے والے۔ بعض نے کہا ہے: یہ رب کی طرف منسوب ہے یعنی اللہ والا۔ حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے : انا ربانی ھذہ الامۃ۔ میں اس امت کا عالم ربّانی ہوں۔

روئے سخن نصرانیوں کی طرف ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہ تو رب تھے اور نہ ہی انہوں نے اپنے لیے ربوبیت کا دعویٰ کیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا (نعوذباللہ) ربوبیت کا دعویٰ کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ کیونکہ اولاً تو وہ بشر ہیں اور بشر مخلوق ہے، رب نہیں ہے۔ معبود کے لیے ضروری ہے کہ محتاج نہ ہو۔کیونکہ اگر وہ محتاج ہے تو کوئی محتاج، اسے کیسے معبود بنائے گا جو خود محتاج ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کتاب کی تعلیم دینے کی جو ذمہ داری انجام دی ہے اس کا نتیجہ توحید ہے نہ کہ شرک۔ کیونکہ توریت ہو یا انجیل تمام آسمانی کتب کی تعلیمات توحید پر استوار ہیں۔ لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ جس نبی نے توریت و انجیل کی تعلیم و تدریس کی ہو وہ شرک باللہ کا حکم دے؟۔