آیات 73 - 74
 

وَ لَا تُؤۡمِنُوۡۤا اِلَّا لِمَنۡ تَبِعَ دِیۡنَکُمۡ ؕ قُلۡ اِنَّ الۡہُدٰی ہُدَی اللّٰہِ ۙ اَنۡ یُّؤۡتٰۤی اَحَدٌ مِّثۡلَ مَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ اَوۡ یُحَآجُّوۡکُمۡ عِنۡدَ رَبِّکُمۡ ؕ قُلۡ اِنَّ الۡفَضۡلَ بِیَدِ اللّٰہِ ۚ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿ۚۙ۷۳﴾

۷۳۔ اور (یہ لوگ آپس میں کہتے ہیں) اپنے دین کے پیروکاروں کے سوا کسی کی بات نہ مانو، کہدیجئے: ہدایت تو بے شک وہ ہے جو اللہ کی طرف سے ہو، (لیکن اہل کتاب باہم یہ کہتے ہیں:) کہیں ایسا نہ ہو جیسی چیز تمہیں ملی ہے ویسی کسی اور کو مل جائے یا وہ تمہارے رب کے حضور تمہارے خلاف حجت قائم کر لیں، ان سے کہدیجئے: فضل تو بے شک اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے عطا فرمائے، اور اللہ بڑی وسعت والا، جاننے والا ہے۔

یَّخۡتَصُّ بِرَحۡمَتِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ﴿۷۴﴾

۷۴۔ وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت سے مختص کرتا ہے اور اللہ عظیم فضل والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَا تُؤۡمِنُوۡۤا: یہود کے سازش کار اپنے کارندوں سے کہتے ہیں: جب ایمان کا اظہار کرو تو ظاہری طور پر کرو، حقیقی ایمان صرف دین یہودی پر رکھو۔

۲۔ قُلۡ اِنَّ الۡہُدٰی ہُدَی اللّٰہِ: یہ جملہ معترضہ ہے اور ساتھ تُؤۡمِنُوۡۤا کا جواب بھی ہے کہ ہدایت دینے والا صرف اللہ ہے تمہارے آمنوا اور لَا تُؤۡمِنُوۡۤا کو ہدایت میں کوئی دخل نہیں ہے۔ اگر کسی کو اللہ کی طرف سے ہدایت ملتی ہے تو وہ تمہارے لَا تُؤۡمِنُوۡۤا کے باوجود ملے گی۔

۳۔ اَنۡ یُّؤۡتٰۤی اَحَدٌ: اس جملے کا عطف لَا تُؤۡمِنُوۡۤا پر ہے۔ یعنی یہود آپس میں کہتے ہیں: لَا تُؤۡمِنُوۡۤا اس کی بات پر یقین نہ کرو کہ نبوت اور رسالت کا جو منصب یہودیوں کو حاصل رہا ہے، وہ کسی اور کو بھی مل سکتا ہے۔

۴۔ اَوۡ یُحَآجُّوۡکُمۡ عِنۡدَ رَبِّکُمۡ: اور مسلمانوں کو یہ موقع بھی نہ دو کہ تمہارے خلاف اللہ کے حضور حجت قائم کریں۔ اس قسم کی سازش کا ذکر سورہ بقرہ آیت ۷۶ میں ہوا ہے۔

وَ اِذَا خَلَا بَعۡضُہُمۡ اِلٰی بَعۡضٍ قَالُوۡۤا اَتُحَدِّثُوۡنَہُمۡ بِمَا فَتَحَ اللّٰہُ عَلَیۡکُمۡ لِیُحَآجُّوۡکُمۡ بِہٖ عِنۡدَ رَبِّکُمۡ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ

اور جب خلوت میں اپنے ساتھیوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: جو راز اللہ نے تمہارے لیے کھولے ہیں وہ تم ان (مسلمانوں) کو کیوں بتاتے ہو؟کیا تم نہیں سمجھتے کہ وہ (مسلمان) اس بات کو تمہارے رب کے حضور تمہارے خلاف دلیل بنائیں گے؟

بعض روایات میں آیا ہے کہ یہ آیت تحویل قبلہ کے بارے میں یہودیوں کی ایک سازش کے بارے نازل ہوئی ہے۔

۵۔ قُلۡ اِنَّ الۡفَضۡلَ بِیَدِ اللّٰہِ: نبوت و رسالت اللہ کا تفضل ہے۔ اللہ کا تفضل اندھی بانٹ نہیں ہے کہ ہر کس و ناکس کو مل جائے یا کسی سازش و حیلوں کی وجہ سے رک جائے یا کسی ایک نسل کے ساتھ اہلیت کے بغیر خاص ہو جائے، بلکہ یہ اللہ کی حکیمانہ مشیت پر مبنی ہے: یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ۔۔۔

۶۔ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ: اللہ کے تفضل میں کسی قسم کی کمی نہیں ہے اور نہ اس کے علم میں کمی ہے کہ کس کو ملنا چاہیے اور کس کو نہیں ملنا چاہیے۔

۷۔ یَّخۡتَصُّ بِرَحۡمَتِہٖ: وہ اپنی اس حکمت و علم کی بنا پر اپنی رحمت کو ایسے لوگوں کے ساتھ مخصوص کر دیتا ہے جو اس کے لیے اہلیت رکھتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ کسی کی سازش سے اللہ اپنے فضل و کرم سے کسی کو محروم نہیں کرتا۔


آیات 73 - 74