آیات 76 - 77
 

بَلٰی مَنۡ اَوۡفٰی بِعَہۡدِہٖ وَ اتَّقٰی فَاِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَّقِیۡنَ﴿۷۶﴾

۷۶۔ہاں!(حکم خدا تو یہ ہے کہ) جو بھی اپنا عہد پورا کرے اور تقویٰ اختیار کرے تو اللہ تقویٰ والوں کو یقینا دوست رکھتا ہے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ یَشۡتَرُوۡنَ بِعَہۡدِ اللّٰہِ وَ اَیۡمَانِہِمۡ ثَمَنًا قَلِیۡلًا اُولٰٓئِکَ لَا خَلَاقَ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ وَ لَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ وَ لَا یَنۡظُرُ اِلَیۡہِمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ وَ لَا یُزَکِّیۡہِمۡ ۪ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۷۷﴾

۷۷۔بے شک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے اور اللہ قیامت کے دن ان سے نہ تو کلام کرے گا اور نہ ان کی طرف نگاہ کرے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

تشریح کلمات

خَلَاقَ:

( خ ل ق ) نصیب۔ حصہ۔

تفسیر آیات

۱۔ بَلٰی مَنۡ اَوۡفٰی بِعَہۡدِہٖ: اسآیت میں یہودیوں کے عزائم کی رد ہے کہ محبوب خدا ہونے کا معیار عہد کی پابندی اور تقویٰ ہے۔ نسل، قومیت اور صرف انتساب نہیں ہے۔

۲۔ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَشۡتَرُوۡنَ: اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ کسی نسل یا قوم سے تعلق ہونا کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا بلکہ جو بھی بدعہدی کرے گا، اسے تین سزائیں بھگتنا ہوں گی:

اول: لَا خَلَاقَ لَہُمۡ: آخرت میں یہ لوگ نہایت بدنصیب ہوں گے۔

دوم: لَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ: اللہ ان سے ہمکلام ہو گا اور نہ ہی ان کی طرف نگاہ کرے گا۔ یعنی اللہ خود ان سے حساب نہیں لے گا بلکہ فرشتے حساب لیں گے۔ ممکن ہے ’’ اللہ ان سے ہم کلام ہو گا اور نہ ہی ان کی طرف نگاہ کرے گا ‘‘ کا مطلب یہ ہو کہ یہ لوگ بغیر حساب جہنم کی طرف بھیج دیے جائیں گے۔

سوم: وَ لَا یُزَکِّیۡہِمۡ: اللہ تعالیٰ دنیا میں ان کے لیے پاک ہونے اور ان کے تزکیے کا سامان فراہم نہیں کرے گا، بلکہ انہیں ان کی نخوت، نسلی عصبیت اور قومی مفاخرت کی تاریکی میں چھوڑ دے گا اور جسے اللہ اپنے حال پر چھوڑ دے، یہ اس کے لیے سب سے بڑی سزا ہے۔ نتیجتاً یہ لوگ عذاب الیم میں مبتلا ہوں گے۔

اہم نکات

۱۔ بدعہدی ، بد کرداری اور نسلی عصبیت کی سزا گمراہی اور دردناک عذاب ہے۔


آیات 76 - 77