آیت 75
 

وَ مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ مَنۡ اِنۡ تَاۡمَنۡہُ بِقِنۡطَارٍ یُّؤَدِّہٖۤ اِلَیۡکَ ۚ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ اِنۡ تَاۡمَنۡہُ بِدِیۡنَارٍ لَّا یُؤَدِّہٖۤ اِلَیۡکَ اِلَّا مَادُمۡتَ عَلَیۡہِ قَآئِمًا ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَالُوۡا لَیۡسَ عَلَیۡنَا فِی الۡاُمِّیّٖنَ سَبِیۡلٌ ۚ وَ یَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ﴿۷۵﴾

۷۵۔ اور اہل کتاب میں کوئی ایسا بھی ہے کہ اگر آپ اسے ڈھیر دولت کا امین بنا دیں تو وہ آپ کو لوٹا دے گا، البتہ ان میں کوئی ایسا بھی ہے جسے اگر آپ ایک دینار کا بھی امین بنا دیں تو وہ آپ کو ادا نہیں کرے گا جب تک آپ اس کے سر پر کھڑے نہ رہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں: ناخواندہ (غیر یہودی) لوگوں کے بارے میں ہم پر کوئی ذمے داری نہیں ہے اور وہ جان بوجھ کر اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ: یہودی آج بھی اپنی قوم کو اللہ کی برگزیدہ قوم خیال کرتے ہیں اور پوری انسانیت کو اپنی سیادت و قیادت کے تابع سمجھتے ہیں۔ لہٰذا وہ کسی غیر یہودی کے لیے انسانی اور اخلاقی حقوق کے قائل نہیں ہیں۔ وہ غیر یہود کو ناخواندہ قوم کہکر ان کے لیے تمام انسانی حقوق کے منکر ہیں۔ ان کے نزدیک کسی غیر یہودی کا مال و جان محترم نہیں ہے۔ یہودیوں کی یہ بدعملی اور خیانت کاری صرف ان کے عملی کردار تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ بدعملی اور خیانت یہودیوں کی مذہبی تعلیم اور یہودیت کے دستور و ضابطۂ حیات اور اخلاقیات کا حصہ بھی ہے۔ بطور مثال اگر کسی اسرائیلی کا بیل کسی غیر اسرائیلی کے بیل کو زخمی کر دے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہے، لیکن اگر کسی غیر اسرائیلی کا بیل کسی اسرائیلی کے بیل کو زخمی کرے تو اس پر تاوان ہے۔ (تلمود) اس پر طرہ یہ کہ نسلی امتیاز و تفریق پر مبنی اس حکم کو اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ لہٰذا یہود اپنے اخلاقیاتی نظریات کے تحت امین نہیں ہیں۔ تاہم بعض یہود امین ہو سکتے ہیں، کیونکہ یہ بات خارج از امکان نہیں ہے کہ ایک یہودی کے فطری تقاضے ان کی خیانت پر مبنی اخلاقیات پر غالب آ جائیں اور امین بن جائے۔ چونکہ یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ تمام انبیاء کی تعلیمات میں ادائے امانت کو انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ حتیٰ کہ یہ بات کسی دیانت اور مذہب سے بھی بالاتر ایک انسانی مسئلہ ہے۔ امام جعفر صادق (ع) سے روایت ہے:

ثَلَاثَۃٌ لَا عُذْرَ فِیْھَا لاَِحَدٍ اَدَائُ الْاَمَانَۃِ اِلَی الْبَرِّ وَ الْفَاجِرِ وَ الْوَفَائُ باِلْعَھْدِ اِلَی الْبَرِّ وَ الْفَاجِرِ وَ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ بَرَّیْنِ کَانَا اَوْ فَاجِرَیْنِ (الکافی ۵:۱۳۲۔ باب اداء الامانۃ۔۔۔۔)

تین چیزوں کے بارے میں کسی کے لیے عذر کی گنجائش نہیں ہے۔ ادائے امانت، اچھے آدمی کی ہو یا برے آدمی کی۔ وفا بعہد، اچھے آدمی کے ساتھ ہو یا برے آدمی کے ساتھ۔ والدین کے ساتھ احسان، دونوں نیک ہوں یا برے۔

دوسری روایت میں آیا ہے:

اِنَّ اللہَ عَزَّ وَ جَلَّ لَمْ یَبْعَثْ نِبِیّاً اِلَّا بِصِدْقِ الْحَدِیْثِ وَ اَدَائِ الْاَمَانَۃِ اِلَی اَلْبَرِّ وَ الْفَاجِرِ ۔(وسائل الشیعۃ ۱۹: ۷۳)

اللہ کے تمام انبیاء کو اس تعلیم کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے کہ گفتگو سچائی کے ساتھ ہو اور امانت کی ادائیگی ہو، خواہ یہ نیک کی ہو یا برے کی۔

۲۔ اِلَّا مَادُمۡتَ عَلَیۡہِ قَآئِمًا: یہودی ادائے امانت کے لیے اس وقت تک آمادہ نہیں ہو گا، جب تک آپ اس کے سر پر کھڑے نہ رہیں۔ یعنی اس خیانت کار یہودی سے اپنی امانت واپس لینے کے لیے آپ کو تکلیف اٹھانا پڑے گی۔

۳۔ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَالُوۡا لَیۡسَ عَلَیۡنَا فِی الۡاُمِّیّٖنَ سَبِیۡلٌ: اس خیانت کے پیچھے ان کی نسلی امتیاز پر مبنی سوچ ہے کہ غیر یہودی کے حقوق نہیں ہوتے۔

۴۔ وَ یَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ پھر وہ اس نسلی امتیاز پر مبنی خیانت کو اللہ کی طرف نسبت دیتے ہیں، جو اللہ پر افترا ہے۔

اہم نکات

۱۔ نسل پرستی اور انسانیت کے استحصال کو مذہب کا حصہ قرار دے کر انہیں اللہ کی طرف منسوب کرنا یہودیوں کا خاصہ رہا ہے۔


آیت 75