ہر امت کے لیے پیغمبر


اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ بِالۡحَقِّ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا ؕ وَ اِنۡ مِّنۡ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ﴿۲۴﴾

۲۴۔ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے اور کوئی امت ایسی نہیں گزری جس میں کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا ہو۔

24۔ کوئی امت ایسی نہیں گزری جس میں کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا ہو۔ اس جملے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی امت ایسی نہیں گزری کہ اس امت میں سے کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا ہو۔ اس سے یہ بات سمجھنے میں آسان ہو جائے گی کہ ہر امت کی من حیث المجموع تنبیہ ہو گئی ہے۔ اس کے لیے ہر قوم میں الگ الگ انبیاء نہیں بھیجے گئے، بلکہ انبیاء کا پیغام اس قوم تک پہنچ گیا یا گزشتہ انبیاء کی رسالت کے آثار نسلوں تک باقی ہیں۔ مثلاً حضرت نوح علیہ السلام کی رسالت کے آثار نسلوں تک باقی رہے تو یہ کہنا درست ہے کہ ان تمام نسلوں کی تنبیہ ہو گئی، یعنی ان پر حجت پوری ہو گئی۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ ہر فرد تک یہ پیغام نہ پہنچے۔ اس صورت میں اس شخص کو قرآنی اصطلاح میں مستضعف کہتے ہیں۔ ان کا مؤاخذہ نہیں ہو گا، چونکہ ان پر حجت پوری نہیں ہوئی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بت پرستی، توحید پرستی کا ایک انحرافی مسلک ہے۔ لہٰذا جہاں بت پرستی ہے وہاں توحید پرستی تھی اور وہاں کوئی نبی مبعوث تھا۔ چنانچہ امریکہ کا انکشاف کرنے والے کہتے ہیں: وہاں آفتاب پرستی کے لیے عبادت خانہ تھا۔ تازہ آنے والوں کو شروع میں وہ آفتاب کی اولاد سمجھتے تھے۔ (قاموس قرآن)