وَ مِنَ النَّاسِ وَ الدَّوَآبِّ وَ الۡاَنۡعَامِ مُخۡتَلِفٌ اَلۡوَانُہٗ کَذٰلِکَ ؕ اِنَّمَا یَخۡشَی اللّٰہَ مِنۡ عِبَادِہِ الۡعُلَمٰٓؤُا ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ غَفُوۡرٌ﴿۲۸﴾

۲۸۔ اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور مویشیوں میں بھی رنگ پائے جاتے ہیں، اللہ کے بندوں میں سے صرف اہل علم ہی اس سے ڈرتے ہیں، بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، معاف کرنے والا ہے۔

28۔ مُخۡتَلِفٌ اَلۡوَانُہٗ : رنگوں، طبیعتوں، خاصیتوں اور مزاج کا اختلاف خالق کی صناعیت اور حسن تدبیر کی دلیل ہے۔

اِنَّمَا یَخۡشَی اللّٰہَ : صرف اہل علم اللہ سے ڈرتے ہیں۔ علم سے ہی جمالیاتی ذوق بیدار ہوتا ہے۔ کائنات کی رنگا رنگ رعنائیوں کو دیکھ کر عالم اس کے خالق کی خلاقیت اور صنعت گری کی معرفت سے سرشار ہو جاتا ہے۔ علم کی وجہ سے پردے ہٹ جاتے ہیں۔ پردے ہٹ جانے سے حقیقت کا چہرہ نمایاں ہو جاتا ہے اور حقیقت کے منکشف ہونے کے بعد انسان خطرات کو بھانپ لیتا ہے۔ بالکل اس شخص کی طرح جو قانون اور جرم و سزا سے آشنا ہو، وہ قانون کے عدل سے خوف کھاتا ہے۔ خدا سے ڈرنے کا مطلب اس کے عدل سے ڈرنا ہے، ورنہ وہ خود ارحم الراحمین ہے۔

حدیث میں آیا ہے: یَعْنِی بِالْعُلَمَائِ مَنْ صَدَّقَ فِعْلُہُ قَوْلَہُ وَ مَنْ لَمْ یُصَدِّقْ فِعْلُہُ قَوْلَہُ فَلَیْسَ بِعَالِمٍ (الکافی 1: 36) علماء سے مراد وہ ہیں جن کا عمل ان کے قول کی تصدیق کرے۔ پس جن کا عمل ان کے قول کی تصدیق نہ کرے وہ عالم نہیں ہیں۔