آیت 29
 

اِنَّ الَّذِیۡنَ یَتۡلُوۡنَ کِتٰبَ اللّٰہِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنۡفَقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً یَّرۡجُوۡنَ تِجَارَۃً لَّنۡ تَبُوۡرَ ﴿ۙ۲۹﴾

۲۹۔ بے شک جو لوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے جو رزق انہیں دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں، وہ ایسی تجارت کے ساتھ امید لگائے ہوئے ہیں جس میں ہرگز خسارہ نہ ہو گا۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَتۡلُوۡنَ کِتٰبَ اللّٰہِ: تلاوت کتاب اللہ سے مراد تلاوت قرآن ہے۔ قرآن کی تلاوت اس صورت میں تمام اعمال سے بہتر ہے جب معانی قرآن میں غور و فکر اور اس پر عمل کیا جائے۔ اس کی تفصیل مقدمہ میں مذکور ہے۔

۲۔ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ: تلاوت کا ایک نتیجہ اقامہ نماز ہے۔ نماز قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے ضائع نہ کیا جائے۔ اس کا پوری طرح تحفظ کیا جائے۔ کوئی نماز ترک نہ ہو اور نماز کو اس کی شرائط کے ساتھ ادا کیا جائے تو یہ نماز قائم کرنے والا کہلائے گا۔

۳۔ وَ اَنۡفَقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ: زرق خدا کو راہ خدا میں خرچ کرنے کی فضیلت تو خود قرآن میں جا بجا بیان ہوئی ہے کہ حب المال انسان کی بہت بڑی کمزوری ہے۔ مال سے ہاتھ اُٹھانے اور اسے راہ خدا میں دینے کی بہت فضیلت ہے۔ اس انفاق سے مراد زکوٰۃ کے علاوہ ہے چونکہ یہ آیت مکی ہے۔ مکہ میں زکوٰۃ فرض نہیں ہوئی تھی۔

۴۔ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً: راہ خدا میں اگر پوشیدہ طور پر مال خرچ کرتے ہیں تو اس میں ریاکاری کا شائبہ نہیں رہتا۔ اس خرچ کا محرک اللہ کی خوشنودی ہے تو یہ انفاق بہت درجہ رکھتا ہے۔

اگر علانیہ انفاق کرے تو اس علانیہ کرنے کا محرک ریاکاری نہ ہو بلکہ انفاق کو لوگوںمیں ترویج دینے کے لیے ہو تو اس کا اپنا درجہ ہے۔

۵۔ یَّرۡجُوۡنَ تِجَارَۃً لَّنۡ تَبُوۡرَ: راہ خدا میں انفاق ایک ایسی سعادت مندانہ تجارت ہے جس کا ایک فریق اللہ ہے۔ دوسرا فریق اس کا اپنا بندہ۔ مال بھی خود اللہ کا۔ بندے کے پاس کچھ دنوں کے لیے امانت تھی۔ فضلیت اس میں ہے کہ بندے نے اس امانت کا اس کے حقیقی مالک کی مرضی کے مطابق اسی کے ساتھ معاملہ کیا ہے۔ جس معاملے کا ایک فریق اللہ ہو بھلا اس معاملے میں خسارے کا امکان ہے؟ نہیں بلکہ یہ تصور سے زیادہ نفع بخش تجارت ہے۔ ایسی تجارت جس میں منافع کی ضمانت دی گئی ہے۔ راہ خدا میں مال خرچ کرنا ایسی سرمایہ کاری ہے جس کا نفع بخش ہونا یقینی ہے۔

اس تجارت کے منافع کی طرف سورۂ بقرہ آیت ۲۶۱ میں اشارہ فرمایا ہے جس میں ایک کے مقابلے عام طور پر سات سو گنا ثواب ملے گا اور خاص بندوں کے لیے اس ثواب کو مضاعف یعنی کئی گنا کیا جا سکتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ تلاوت قرآن کا ذکر نماز سے پہلے آیا ہے چونکہ قرآن فہمی نماز کے لیے بنیاد ہے۔

۲۔ نماز انفاق کے ساتھ ہونی چاہیے۔

۳۔ مال حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے: رَزَقۡنٰہُمۡ۔۔۔۔

۴۔ جس تجارت کا ایک فریق اللہ ہو اس سے زیادہ نفع بخش تجارت نہیں ہو سکتی۔


آیت 29