آیات 27 - 28
 

اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً ۚ فَاَخۡرَجۡنَا بِہٖ ثَمَرٰتٍ مُّخۡتَلِفًا اَلۡوَانُہَا ؕ وَ مِنَ الۡجِبَالِ جُدَدٌۢ بِیۡضٌ وَّ حُمۡرٌ مُّخۡتَلِفٌ اَلۡوَانُہَا وَ غَرَابِیۡبُ سُوۡدٌ﴿۲۷﴾

۲۷۔ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا پھر ہم نے اس سے مختلف رنگوں کے پھل نکالے؟ اور پہاڑوں میں مختلف رنگوں کی سفید سرخ گھاٹیاں پائی جاتی ہیں اور کچھ گہری سیاہ ہیں۔

وَ مِنَ النَّاسِ وَ الدَّوَآبِّ وَ الۡاَنۡعَامِ مُخۡتَلِفٌ اَلۡوَانُہٗ کَذٰلِکَ ؕ اِنَّمَا یَخۡشَی اللّٰہَ مِنۡ عِبَادِہِ الۡعُلَمٰٓؤُا ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ غَفُوۡرٌ﴿۲۸﴾

۲۸۔ اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور مویشیوں میں بھی رنگ پائے جاتے ہیں، اللہ کے بندوں میں سے صرف اہل علم ہی اس سے ڈرتے ہیں، بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، معاف کرنے والا ہے۔

تشریح کلمات

جُدَدٌۢ:

( ج د د ) یہ جُدۃٌ کی جمع ہے جس کے معنی کھلے راستہ کے ہیں۔ اسی سے شاہراہ کو جادۃ کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً: اس بات پر ایک شاہد کا ذکر ہے کہ اس کائنات کی تدبیر صرف ایک ہی ذات کے ہاتھ میں ہے جس نے آسمان سے ایک قسم کا پانی نازل کیا لیکن اس ایک پانی سے مختلف رنگوں کے پھل نکالے۔ رنگوں کے مختلف ہونے سے پھلوں کا ذائقہ، طبیعت اور مزاج بھی مختلف ہو جاتے ہیں۔

زمین پر پانی پڑنے سے زمین میں موجود مختلف عناصر میں موجود خاصیتیں فعال ہوجاتی ہیں اور جو دانہ زمین میں جاتا ہے اسے اس بات کا شعور ہے کہ کن عناصر کو جذب کرنا ہے تاکہ مطلوبہ پھل وجود میں آئے۔ اس دانے کو کس نے سمجھایا کہ مخصوص عناصر کو جذب کر کے ترکیب دینا ہے تاکہ مطلوبہ پھل وجود میں آئے۔ کیا یہ تمہارے معبودوں نے سمجھایا ہے یا خدائے واحد نے؟ یہ عدم یکسانیت اللہ کی خلاقیت اور صناعیت کی دلیل ہے۔

۲۔ وَ مِنَ الۡجِبَالِ جُدَدٌۢ بِیۡضٌ وَّ حُمۡرٌ: اور پہاڑوں میں مختلف رنگوں کی گھاٹیاں پائی جاتی ہیں۔ ان گھاٹیوں اور راستوں کا رنگ مختلف ہے۔ رنگ، نوع اور کیفیت میں اختلاف سے شناخت اور اختیار کرنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ اختلاف تدبیر امور کا حصہ ہے ورنہ سب ایک رنگ، ایک نوع اور ایک کیفیت کی ہوتیں تو مختلف ضرورتیں پوری نہ ہوتیں۔ ممکن ہے کہ جُدَدٌۢ کا ترجمہ دھاریوں سے کیا جائے تو یہ بھی قدرت کی صناعیت ہے کہ مختلف رنگوں سے خالق کے ارادے کا پتہ چلتا ہے ورنہ اگر تمام چیزیں یکساں ہوتیں تو کوئی کہہ سکتا تھا کہ اتفاق سے وجود میں آئی ہیں۔ کسی شعور و ارادے کی کرشمہ سازی نہیں ہے۔

۳۔ وَ مِنَ النَّاسِ وَ الدَّوَآبِّ وَ الۡاَنۡعَامِ: اسی طرح تنوع اور عدم یکسانی انسانوں میں بھی ہے۔ دو انسانوں کی شکل، مزاج، رنگ، آواز، چال اور ترجیحات ایک طرح کی نہیں ہیں۔ اسی طرح حیوانات میں بھی اگر ایک ماں، باپ سے ہوں تو بھی یکسانیت نہیں پائی جاتی۔ اَلۡوَانُہٗ میں الوان سے مراد اقسام و انواع بھی لیا جا سکتے ہیں۔ ضمیر وحدت اس لیے ہے کہ یہ ضمیر ما ھو، مُخۡتَلِفٌ اَلۡوَانُہٗ میں ھو کی طرف ہے یا جنس مقدر ہے۔ (مجمع البیان)

۴۔ اِنَّمَا یَخۡشَی اللّٰہَ مِنۡ عِبَادِہِ الۡعُلَمٰٓؤُا: اللہ کے بندوں میں صرف علم رکھنے والے ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔ علم سے جمالیاتی ذوق بیدار ہوتا ہے۔ کائنات کی رنگارنگ رعنائیوں کو دیکھ کر عالم اس کے خالق کی خلاقیت اور صنعت گری کی معرفت سے سرشار ہوتا ہے۔ علم کی وجہ سے پردے ہٹ جاتے ہیں۔ پردے ہٹ جانے سے بہت سے حقائق جو جاہل سے پوشیدہ ہیں، عالم کے سامنے آجاتے ہیں۔ حقائق کے منکشف ہونے کے بعد عالمِ خطرات کو بھانپ لیتا ہے، بالکل اس شخص کی طرح جو قانون اور جرم و سزا سے آشنا ہو۔ وہ قانون کے عدل سے خوف کھاتا ہے اور جو شخص صحت کے اصولوں سے واقف ہو وہ مضر صحت چیزوں سے خوف کھاتا ہے۔

ایک مرتبہ کا واقعہ ہے:

مدینہ منورہ کے شیعہ عالم دین آیۃ اللہ محمد علی العمریؒ کے صاحبزادے لاہور میں زیر تعلیم تھے۔ ان کے ہمراہ ہم شہر کے اندر کہیں جا رہے تھے۔ راستے میں انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ اس کا کیا مطلب ہے کہ اللہ سے صرف علم رکھنے والے ہی ڈرتے ہیں۔ ان کا سوال ابھی ختم ہوا ہی تھا کہ ٹریفک کی بھیڑ کے درمیان میں ایک بھینس بلاخوف و خطر آرام سے کھڑی نظر آئی میں نے ان سے کہا: دیکھو! یہ بھینس چونکہ علم نہیں رکھتی اس لیے اس خطرناک ٹریفک کے درمیان بلا خوف کھڑی ہے۔

اللہ سے ڈرنے کا مطلب اس کے عدل سے ڈرنا ہے ورنہ وہ خود ارحم الراحمین ہے۔

آیت میں علماء سے مراد صرف وہ لوگ نہیں ہیں جنہیں اصطلاح میں علماء کہا جاتا ہے۔ عالم وہ ہے جس کا علم اسے خوف خدا سے آشنا کرے۔ حدیث میں آیا ہے:

یَعْنِی بِالْعُلَمَائِ مَنْ صَدَّقَ فِعْلُہُ قَوْلَہُ وَ مَنْ لَمْ یُصَدِّقْ فِعْلُہُ قَوْلَہُ فَلَیْسَ بِعَالِمٍ۔ (الکافی ۱: ۳۶)

علماء سے مراد وہ ہیں جن کا عمل ان کے قول کی تصدیق کرے، جن کا عمل ان کے قول تصدیق نہ کرے وہ عالم نہیں ہیں۔

دوسری حدیث میں آیا ہے:

علم لا یصلحک ضلال ومال لا ینفعک وبال۔ (غرر الحکم حکمت:۱۹۲)

وہ علم جو تیری اصلاح نہ کرے ضلالت ہے اور وہ مال جو تجھے فائدہ نہ دے وبال ہے۔

نیز حدیث ہے:

اعلمکم باللّٰہ اخوفکم للّٰہ۔ (بحار ۶۷: ۳۴۴)

تم میں سے زیادہ عالم باللہ وہ ہے جو اللہ سے زیادہ خوف رکھتا ہو۔

اہم نکات

۱۔ مخلوقات میں تنوع اللہ تعالیٰ کی صناعیت کی نشانی ہے۔

۲۔ عالم وہ ہے جس کا علم خوف خدا کا باعث بنے۔


آیات 27 - 28