آیات 19 - 23
 

وَ مَا یَسۡتَوِی الۡاَعۡمٰی وَ الۡبَصِیۡرُ ﴿ۙ۱۹﴾

۱۹۔ اور نابینا اور بینا برابر نہیں ہو سکتے،

وَ لَا الظُّلُمٰتُ وَ لَا النُّوۡرُ ﴿ۙ۲۰﴾

۲۰۔ اور نہ ہی اندھیرا اور نہ روشنی،

وَ لَا الظِّلُّ وَ لَا الۡحَرُوۡرُ ﴿ۚ۲۱﴾

۲۱۔ اور نہ سایہ اور نہ دھوپ،

وَ مَا یَسۡتَوِی الۡاَحۡیَآءُ وَ لَا الۡاَمۡوَاتُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُسۡمِعُ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَاۤ اَنۡتَ بِمُسۡمِعٍ مَّنۡ فِی الۡقُبُوۡرِ﴿۲۲﴾

۲۲۔ اور نہ ہی زندے اور نہ ہی مردے یکساں ہو سکتے ہیں، بے شک اللہ جسے چاہتا ہے سنواتا ہے اور آپ قبروں میں مدفون لوگوں کو تو نہیں سنا سکتے۔

اِنۡ اَنۡتَ اِلَّا نَذِیۡرٌ﴿۲۳﴾

۲۳۔ آپ تو صرف تنبیہ کرنے والے ہیں۔

تشریح کلمات

الۡحَرُوۡرُ:

( ح ر ر ) گرم دھوپ۔ گرم ہوا، زہریلی ہوا۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مَا یَسۡتَوِی الۡاَعۡمٰی وَ الۡبَصِیۡرُ: کفر و ایمان، مومن اور کافر، اللہ تعالیٰ اور اصنام میں ایک محسوساتی موازنہ پیش کیا جا رہا ہے چونکہ انسان محسوسات بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔ فرمایا: وہ شخص جس میں بینائی نہ ہو، جس نے روشنی دیکھی ہی نہ ہو اور روشنی سے آشنا ہی نہ ہو، روشنی سے استفادہ کرنے کی صلاحیت نہ ہو، کیا وہ اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو چشم بصارت و بصیرت رکھتا ہے۔ روشنی سے فائدہ اُٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ جس قلب میں ایمان ہے وہ چشم بینا رکھتا ہے، جب کہ ایمان نہ رکھنے والا اپنے نفع و نقصان کی چیزیں نہیں دیکھ پاتا۔

۲۔ وَ لَا الظُّلُمٰتُ وَ لَا النُّوۡرُ: نہ ہی اندھیرا اور روشنی برابر ہو سکتے ہیں۔ تاریکی میں تمام تر ارتقائی پیشرفت رک جاتی ہے، فعالیات مفلوج ہو جاتی ہیں۔ زندگی کا پہیہ رک جاتا ہے۔ موت کی سی خاموشی چھا جاتی ہے۔ جب کہ نور، سرچشمۂ حیات، مایۂ زندگی ہے۔ ایمان نور ہے، ایک بینش ہے۔ اس نور کے ذریعے انسان اپنی دنیاوی و اخروی زندگی کے لوازمات جمع کر سکتا ہے۔ جب کہ ایمان نہ رکھنے والا دارین کی مفید اور مضر چیزوں کی شناخت نہیں رکھتا۔

۴۔ وَ لَا الظِّلُّ وَ لَا الۡحَرُوۡرُ: اسی طرح سائے کی ٹھنڈک اور دھوپ کی تپش برابر نہیں ہو سکتی۔ سائے میں سکون ہے۔ حرور، باد سموم میں زندگی مفلوج ہو جاتی ہے۔

۵۔ وَ مَا یَسۡتَوِی الۡاَحۡیَآءُ وَ لَا الۡاَمۡوَاتُ: نہ ہی زندے اور مردے برابر ہو سکتے ہیں۔ ایک زندہ شخص سے آپ بہت توقعات رکھ سکتے ہیں۔ ایک مردہ لاش میں تعفن کے علاوہ کوئی خیر نہیں ہوتی۔ مؤمن زندگی رکھتا ہے۔ زندگی میں نشو و نما ہے۔ اس کے وجود کے ثمرات ہیں۔

۶۔ اِنَّ اللّٰہَ یُسۡمِعُ مَنۡ یَّشَآءُ: اللہ جسے چاہتا ہے سنواتا ہے۔ یہ بات اللہ کی مشیت کے تابع ہے کہ اللہ کس تک اپنی دعوت پہنچاتا اور ہدایت دیتا ہے اور کون اس کا اہل ہے۔

۷۔ وَ مَاۤ اَنۡتَ بِمُسۡمِعٍ مَّنۡ فِی الۡقُبُوۡرِ: آپ ایسے لوگوں تک اپنی آواز نہیں پہنچا سکتے جو قبر میں مدفون شخص کی طرح ہیں۔ ان میں شنوائی کی اہلیت نہیں ہے۔

واضح رہے جب کوئی اہل نہیں ہوتا تو دعوت کا مؤثر ہونا کافی نہیں ہے۔ جیسا کہ کوئی اللہ کی رحمت کا اہل نہیں ہے تو اللہ کا ارحم الرحمین ہونا کافی نہیں ہے۔

۸۔ اِنۡ اَنۡتَ اِلَّا نَذِیۡرٌ: آپؐ کے ذمے دعوت پہنچانا، حجت پوری کرنا ہے۔ اس دعوت پر لوگوں کا ایمان لے آنا اور اسے قبول کرانا آپؐ کی ذمہ داری نہیں ہے۔

فضیلت: ابو صالح، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں:

مَا یَسۡتَوِی الۡاَعۡمٰی ابو جہل ہے۔ الۡبَصِیۡرُ علی بن ابی طالبؑ ہیں۔ وَ لَا الظُّلُمٰتُ ابو جہل ہے جس کا دل شرک کی تاریکی میں ہے۔ وَ لَا النُّوۡرُ علیؑ کا قلب ہے جو نور سے پُر ہے۔ وَ لَا الظِّلُّ علیؑ ہیں جو جنت میں ہوں گے۔ وَ لَا الۡحَرُوۡرُ ابوجہل ہے جو جہنم میں ہو گا۔ وَ مَا یَسۡتَوِی الۡاَحۡیَآءُ علی، حمزہ، جعفر، حسن وحسین فاطمہ، خدیجہ علیہم السلام ہیں۔ وَ لَا الۡاَمۡوَاتُ کفار مکہ ہیں۔ ( شواھد التنزیل ذیل آیت)

اہم نکات

۱۔ ایمان سے بینائی، روشنی، سکون اور زندگی ملتی ہے۔

۲۔ جو اہل نہیں اس تک ہدایت کی صدا نہیں پہنچ پاتی۔


آیات 19 - 23