آیت 24
 

اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ بِالۡحَقِّ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا ؕ وَ اِنۡ مِّنۡ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ﴿۲۴﴾

۲۴۔ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے اور کوئی امت ایسی نہیں گزری جس میں کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا ہو۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ بِالۡحَقِّ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا: اس جملے کی تشریح سورہ بقرہ آیت ۱۱۹ میں ہو گئی ہے۔

۲۔ وَ اِنۡ مِّنۡ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ: کوئی امت ایسی نہیں گزری جس میں کوئی تنبیہ کرنے والا نہ آیا ہو۔ کسی نبی کا پیغام جس تک پہنچے اس کی تنبیہ ہو گئی۔ اس پر یہ آیت شاہد ہے:

وَ اُوۡحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ لِاُنۡذِرَکُمۡ بِہٖ وَ مَنۡۢ بَلَغَ۔۔۔۔ (۶ انعام: ۱۹)

اور یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی نازل کیا گیا ہے تاکہ میں تمہیں اور جس تک یہ پیغام پہنچے سب کو تنبیہ کروں۔

اس آیت کے تحت نذیر وہ ہے جس کا پیغام ہے، وہ نبی ہیں۔ وَ مَنۡۢ بَلَغَ کے تحت مبلغ کو نذیر کہتے ہیں۔ لہٰذا کسی نبی کا پیغام جس جس قوم تک پہنچا ہے، اس قوم کے وہ نبی نذیر ہیں۔

لہٰذا یہ نظریہ بھی درست ہے عالم اور مبلغ کو بھی نذیر کہتے ہیں۔ چونکہ قرآن نے نبی کا پیغام پہچانے والے کو بھی نذیر کہا ہے۔ چنانچہ فرمایا:

وَ لِیُنۡذِرُوۡا قَوۡمَہُمۡ اِذَا رَجَعُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ لَعَلَّہُمۡ یَحۡذَرُوۡنَ﴿۱۲۲﴾ (۹ توبۃ: ۱۲۲)

اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آئیں تو انہیں تنبیہ کریں تاکہ وہ (ہلاکت خیز باتوں سے) بچے رہیں۔

اس آیت میں مبلغ کے لیے بھی ’’انذار کرنے والے‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔

اس تشریح سے یہ بات سمجھنے میں آسانی ہو گی کہ ہر امت کی من حیث القوم تنبیہ ہو گئی ہے۔ اس کے لیے ہر قوم میں الگ الگ انبیاء نہیں بھیجے گئے: وَ لَوۡ شِئۡنَا لَبَعَثۡنَا فِیۡ کُلِّ قَرۡیَۃٍ نَّذِیۡرًا ﴿۵۱﴾ (۲۵ فرقان: ۵۱ (ْترجمہ) اگر ہم چاہتے تو ہر بستی میں ایک تنبیہ کرنے والا مبعوث کرتے) ہر بستی کے لیے نبی نہیں بھیجا گیا بلکہ ہر قوم کی تنبیہ ہو گئی۔

مثلاً حضرت نوح علیہ السلام کی رسالت کے آثار نسلوں تک باقی رہے ہیں تو ان تمام نسلوں کی تنبیہ ہو گئی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی رسالت کے آثار صدیوں تک باقی رہے تو ان سب اقوام کی تنبیہ ہو گئی۔ البتہ ممکن ہے ہر فرد تک یہ پیغام نہ پہنچے۔ اس شخص کو قرآنی اصطلاح میں مستضعف کہتے ہیں۔ اس کا مؤاخذہ نہیں ہو گا چونکہ اس پر حجت پوری نہ ہوئی۔

البتہ کسی نبی کی رسالت کے آثار مٹنے لگیں تو اس وقت نئے نبی کا مبعوث ہونا ضروری ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بت پرستی، توحید پرستی کا انحرافی مسلک ہے لہٰذا جہاں بت پرستی ہے وہاں توحید پرستی تھی اور وہاں کوئی نبی مبعوث تھا۔ چنانچہ امریکہ کا انکشاف کرنے والے کہتے ہیں کہ وہاں آفتاب پرستی کے لیے عبادت خانہ تھا۔ نئے آنے والوں کو شروع میں وہ آفتاب کی اولاد سمجھتے تھے۔ (قاموس قرآن)

اہم نکات

۱۔ ہر قوم و ملت تک اللہ کا پیغام پہنچا ہے۔

۲۔ زمین کبھی حجت خدا سے خالی نہیں رہی۔


آیت 24