وَ لَا تَنۡفَعُ الشَّفَاعَۃُ عِنۡدَہٗۤ اِلَّا لِمَنۡ اَذِنَ لَہٗ ؕ حَتّٰۤی اِذَا فُزِّعَ عَنۡ قُلُوۡبِہِمۡ قَالُوۡا مَاذَا ۙ قَالَ رَبُّکُمۡ ؕ قَالُوا الۡحَقَّ ۚ وَ ہُوَ الۡعَلِیُّ الۡکَبِیۡرُ﴿۲۳﴾

۲۳۔اور اللہ کے نزدیک کسی کے لیے شفاعت فائدہ مند نہیں سوائے اس کے جس کے حق میں اللہ نے اجازت دی ہو، یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے پریشانی دور ہو گی تو وہ کہیں گے: تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ وہ کہیں گے: حق فرمایا ہے اور وہی برتر، بزرگ ہے۔

23۔ مشرکین اپنے معبودوں کو اللہ کے ہاں شفاعت کنندہ سمجھتے تھے۔ مشرکین کے ہاں شفاعت سے مراد دنیاوی معاملات میں سفارش ہے۔ آخرت کے وہ منکر تھے۔ لہٰذا آیت کا موضوع دنیا میں شفاعت ہے۔ اس سلسلے میں فرمایا: دنیا میں بھی شفاعت کی کوئی ذات بذات خود حقدار نہیں ہے، جب تک مالک حقیقی کی طرف سے عنایت نہ ہو۔ یعنی فرشتے سفارش ضرور کر سکتے ہیں، لیکن ہر بات میں، ہر کسی کے لیے نہیں، بلکہ اس کے حق میں شفاعت کر سکتے ہیں جس کے لیے اذن مل جائے۔ فرشتوں کو بذات خود شفاعت کا حق ہونا دور کی بات ہے، بلکہ یہ خود امر خدا کے انتظار میں پریشان حال ہوتے ہیں کہ کیا حکم ملنے والا ہے، حکم خدا آنے پر ان کے دلوں کی پریشانی دور ہو جاتی ہے اور ایک دوسرے سے اس حکم کی نوعیت پوچھتے ہیں۔