آیت 23
 

وَ لَا تَنۡفَعُ الشَّفَاعَۃُ عِنۡدَہٗۤ اِلَّا لِمَنۡ اَذِنَ لَہٗ ؕ حَتّٰۤی اِذَا فُزِّعَ عَنۡ قُلُوۡبِہِمۡ قَالُوۡا مَاذَا ۙ قَالَ رَبُّکُمۡ ؕ قَالُوا الۡحَقَّ ۚ وَ ہُوَ الۡعَلِیُّ الۡکَبِیۡرُ﴿۲۳﴾

۲۳۔اور اللہ کے نزدیک کسی کے لیے شفاعت فائدہ مند نہیں سوائے اس کے جس کے حق میں اللہ نے اجازت دی ہو، یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے پریشانی دور ہو گی تو وہ کہیں گے: تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ وہ کہیں گے: حق فرمایا ہے اور وہی برتر، بزرگ ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لَا تَنۡفَعُ الشَّفَاعَۃُ عِنۡدَہٗۤ: مشرکین اپنے معبودوں، ملائکۃ کو اللہ کے ہاں شفاعت کنندہ سمجھتے تھے:

ہٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنۡدَ اللّٰہِ۔۔۔۔ (۱۰ یونس:۱۸)

یہ اللہ کے پاس ہماری شفاعت کرنے والے ہیں۔

مشرکین کے ہاں شفاعت سے مراد دنیاوی معاملات میں سفارش ہے، آخرت کے وہ منکر تھے۔ لہٰذا آیت کا موضوع دنیا میں شفاعت ہے۔ اس سلسلے میں فرمایا: دنیا میں بھی کوئی ذات بذات خود شفاعت کی حقدار نہیں ہے جب تک مالک حقیقی کی طرف سے اجازت نہ ہو۔ یعنی فرشتے سفارش ضرور کر سکتے ہیں لیکن ہر بات اور ہر کسی کے لیے نہیں بلکہ اس کے حق میں شفاعت کر سکتے ہیں جس کے لیے اذن مل جائے۔

۲۔ اِلَّا لِمَنۡ اَذِنَ لَہٗ: اس جملے کے دو معنی ہو سکتے ہیں: ایک یہ کہ اس شخص کی شفاعت مفید ہو سکتی ہے جسے شفاعت کا کردار ادا کرنے کا اذن مل جائے۔ دوسرے معنی یہ ہو سکتے ہیں: شفاعت اس شخص کے حق میں مؤثر ہے جسے شفاعت ملنے کا اذن ہو۔ دوسرے معنی زیادہ قرین واقع معلوم ہوتے ہیں۔

۳۔ حَتّٰۤی اِذَا فُزِّعَ عَنۡ قُلُوۡبِہِمۡ: التفزیع پریشانی کا دور ہونا۔ فرشتوں کو بذات خود شفاعت کا حق ہونا دور کی بات ہے بلکہ یہ خود امر خدا کے انتظار میں پریشان رہتے ہیں کہ کیا حکم ملنے والا ہے۔ حکم خدا کے آنے پر ان کی پریشانی دور ہو جاتی ہے اور ایک دوسرے سے اس حکم کی نوعیت پوچھتے ہیں۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرشتے کس بات پر پریشان ہوتے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ ان کو اجمالاً علم ہوتا ہے کہ انہیں شفاعت کا حق ملنے کا امکان ہے۔ پریشانی اس بات کی ہوتی ہے کہ یہ حق ملنے والا ہے یا نہیں؟ جب یہ حق مل جاتا ہے تو پریشانی دور ہو جاتی ہے۔

۴۔ مَاذَا ۙ قَالَ رَبُّکُمۡ: تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے؟ اس سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں میں بھی مراتب ہیں۔ ادنی مرتبہ والے اعلیٰ مرتبہ والوں سے سوال کرتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کی طرف سے شفاعت کا اذن ملنے کے لیے اس کا اہل ہونا چاہیے۔


آیت 23