آیت 28
 

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا وَّ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔ اور ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے فقط بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ: مکہ میں نازل ہونے والی یہ آیت مستشرقین کے اس اعتراض کا دندان شکن جواب ہے جو کہتے ہیں: محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شروع میں خیال یہ تھا کہ وہ صرف اہل مکہ اور اس کے گرد و پیش کی چند بستیوں کی طرف مبعوث ہوئے ہیں، بعد میں غیرمتوقع کامیابی دیکھ کر یہ دعویٰ شروع کیا کہ میں پورے جزیرۃ العرب کی طرف مبعوث ہوا ہوں اور بعد میں دعویٰ کیا کہ پورے عالم کی طرف مبعوث ہوا ہوں۔

کَآفَّۃً: کے ایک یہ معنی بھی کیے جاتے ہیں کہ یہ کف سے ہے جو روکنے کے معنوں میں ہے اور کَآفَّۃً میں تاء مبالغہ کے لیے ہے جیسے علامۃ میں اور مطلب یہ ہے کہ آپؐ کو لوگوں کو کفر سے روکنے کے لیے مبعوث کیا ہے۔ یہ معنی اس ترکیب کلام میں ہرگز درست نہیں ہے چونکہ قرآنی استعمالات میں اس قسم کی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ آپؐ کو کفر سے روکنے والا کہا ہو۔ قرآن کف کا لفظ استعمال نہیں کرتا جو طاقت کے ذریعے روکنے کے معنوں میں ہے۔ جیسے فَکَفَّ اَیۡدِیَہُمۡ عَنۡکُمۡ۔۔۔۔ (۵ مائدۃ: ۱۱) بلکہ نَذِیۡرًا کا لفظ استعمال کرتا ہے جو تنبیہ کے ساتھ تبلیغ کے معنوں میں ہے۔ لسان العرب میں آیا ہے: الانذار الابلاغ ولا یکون الا فی التخویف: انذار ابلاغ کو کہتے ہیں جو صرف اس ابلاغ کے لیے ہوتا ہے جس میں عاقبت بد سے ڈرانا مقصود ہو۔

قرآن لفظ کَآفَّۃً ، عامۃ کے معنوں میں استعمال کرتا ہے۔ جیسے:

ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً۔۔۔۔ (۲ بقرۃ:۲۰۸)

تم سب کے سب (دائرہ ) امن و آشتی میں آجاؤ۔

وَ قَاتِلُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ کَآفَّۃً کَمَا یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ کَآفَّۃً۔۔۔۔ (۹ توبۃ: ۳۶)

اور تم، سب مشرکین سے لڑو جیساکہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں۔

وَ مَا کَانَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لِیَنۡفِرُوۡا کَآفَّۃً۔۔ (۹ توبۃ: ۱۲۲)

اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب مومنین نکل کھڑے ہوں۔

ان تمام آیات میں لفظ کَآفَّۃًعامۃ ’’سب کے سب‘‘ کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔

نیز مکہ میں نازل ہونے والی دیگر متعدد آیات سے اس معنی کی تائید ہوتی ہے کہ آپؐ کی رسالت عالمی ہے۔

قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعَۨا۔۔۔۔ (۷ اعراف: ۱۵۸)

کہدیجیے: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا (بھیجا ہوا) رسول ہوں۔

تَبٰرَکَ الَّذِیۡ نَزَّلَ الۡفُرۡقَانَ عَلٰی عَبۡدِہٖ لِیَکُوۡنَ لِلۡعٰلَمِیۡنَ نَذِیۡرَا ۙ﴿۱﴾ ( ۲۵ فرقان: ۱)

بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل فرمایا تاکہ وہ سارے جہاں والوں کے لیے انتباہ کرنے والا ہو۔

وَ اُوۡحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ لِاُنۡذِرَکُمۡ بِہٖ وَ مَنۡۢ بَلَغَ۔۔۔۔ (۶ انعام: ۱۹)

اور یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی نازل کیا گیا ہے تاکہ میں تمہیں اور جس تک یہ پیغام پہنچے سب کو تنبیہ کروں۔

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ﴿۱۰۷﴾ (۲۱ انبیاء: ۱۰۷)

اور (اے رسول) ہم نے آپ کو بس عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

یہ تمام آیات، مکہ میں نازل ہونے والی سورہ ہائے قرآن میں ہیں لہٰذا رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے عالمی ہونے کی تصریحات مکہ کے ابتدائی دنوں کی بات ہے، بعد کی نہیں۔

رہا یہ سوال کہ کَآفَّۃً حال نہیں ہو سکتا لِّلنَّاسِ کا، جو کہ مجرور ہے اور مجرور کا حال مقدم نہیں ہو سکتا؟

جواب: نحوی قواعد، استعمالات عرب کی روشنی میں ترتیب دیے گئے ہیں لہٰذا قرآنی استعمالات، نحوی قواعد کے لیے شاہد بنتے ہیں۔ اس طرح نحوی قواعد، استعمالات عرب کے تابع ہیں۔

دوسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ کَآفَّۃً حال ہے اَرۡسَلۡنٰکَ میں کاف خطاب کا، نہ للناس کا۔ (بیضاوی)

تیسری بات مجرور کا حال مقدم ہونا محققین کے ہاں جائز ہے۔ جیسا کہ ابو علی الفارسی۔ ابن کیسان، ابن عطیہ اور سید رضی جواز کے قائل ہیں۔ (التحریر و التنویر)۔

اہم نکات

۱۔ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت عالمی ہے۔

۲۔ رسالت دو بنیادوں: بشارت و نذارت پر قائم ہے۔


آیت 28