آیات 29 - 30
 

وَ یَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی ہٰذَا الۡوَعۡدُ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۲۹﴾

۲۹۔ اور یہ کہتے ہیں: اگر تم لوگ سچے ہو (تو بتاؤ قیامت کے) وعدے کا دن کب آنے والا ہے؟

قُلۡ لَّکُمۡ مِّیۡعَادُ یَوۡمٍ لَّا تَسۡتَاۡخِرُوۡنَ عَنۡہُ سَاعَۃً وَّ لَا تَسۡتَقۡدِمُوۡنَ﴿٪۳۰﴾

۳۰۔ کہدیجئے: تم سے ایک دن کا وعدہ ہے جس سے تم نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکو گے اور نہ آگے بڑھ سکو گے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ یَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی ہٰذَا الۡوَعۡدُ: منکرین قیامت اپنے انکاری لہجے میں بطور استہزا کہتے تھے کہ جس قیامت سے ہمیں ڈراتے ہو وہ کب آنے والی ہے۔

۲۔ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ: اگر دعوائے قیامت میں سچے ہو تو اس کی تاریخ کا تعین کرو۔ اس جملے میں جمع کا صیغہ اس لیے استعمال ہوا ہے کہ اس کے مخاطبین میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قیامت پر ایمان لانے والے سب شامل ہیں۔

۳۔ قُلۡ لَّکُمۡ مِّیۡعَادُ: یوم قیامت کے لیے اس نظام کائنات کے تحت ایک وقت مقرر ہے۔ اس مقررہ وقت کو اللہ تعالیٰ نے پوشیدہ رکھا ہے۔

اِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ اَکَادُ اُخۡفِیۡہَا لِتُجۡزٰی کُلُّ نَفۡسٍۭ بِمَا تَسۡعٰی﴿۱۵﴾ (۲۰ طہ: ۱۵)

قیامت یقینا آنے والی ہے، میں اسے پوشیدہ رکھوں گا تاکہ ہر فرد کو اس کی سعی کے مطابق جزا ملے۔

چنانچہ یہ علم صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے۔

وَ عِنۡدَہٗ عِلۡمُ السَّاعَۃِ ۚ وَ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ﴿۸۵﴾ (۴۳ زخرف: ۸۵)

اور اسی کے پاس قیامت کا علم ہے اور تم سب اسی کی طرف پلٹائے جاؤ گے۔

۴۔ لَّا تَسۡتَاۡخِرُوۡنَ عَنۡہُ سَاعَۃً: قیامت کا دن مقرر اور معین ہے۔ اس مقررہ وقت سے ایک لمحہ کے لیے تقدیم تاخیر نہیں ہو سکتی۔ یہ بات ہم سب کے مشاہدے میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وضع کردہ مقررہ نظام میں تبدیلی نہیں آتی۔ مثلاً جس لمحے میں سورج نے طلوع کرنا ہے اسی مقررہ وقت پر اربوں سال سے طلوع کر رہا ہے۔

البتہ یہ علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے کہ اس نظام کی عمر کیا ہے اور کس لمحے یہ عمر ختم ہونے والی ہے۔

ہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا السَّاعَۃَ اَنۡ تَاۡتِیَہُمۡ بَغۡتَۃً۔۔۔۔ (۴۳ زخرف: ۶۶)

کیا یہ لوگ صرف قیامت کے منتظر ہیں کہ وہ ان پر اچانک آپڑے۔۔۔۔

جب نظام کائنات کی عمر ختم ہو جائے گی، قیامت اچانک آ جائے گی۔

اہم نکات

۱۔ نظام کائنات کا وہ راز صرف اللہ کے پاس ہے جس کے تحت دفعتاً قیامت آنے والی ہے۔

۲۔ اللہ کے وضع کردہ نظام میں تقدیم و تاخیر نہیں ہے۔


آیات 29 - 30