آیت 24
 

قُلۡ مَنۡ یَّرۡزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ قُلِ اللّٰہُ ۙ وَ اِنَّاۤ اَوۡ اِیَّاکُمۡ لَعَلٰی ہُدًی اَوۡ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ﴿۲۴﴾

۲۴۔ان سے پوچھیے:تمہیں آسمانوں اور زمین سے رزق کون دیتا ہے؟ کہدیجئے: اللہ، تو ہم اور تم میں سے کوئی ایک ہدایت پر یا صریح گمراہی میں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ قُلۡ مَنۡ یَّرۡزُقُکُمۡ: سوال کشف حقیقت اور مدمقابل کے نظریے کو رد کرنے کا ایک مؤثر طریقہ ہے۔ ان مشرکین سے پوچھ لیجیے کہ آسمانوں اور زمین سے تمہیں کون روزی دیتا ہے؟ قُلِ اللّٰہُ آپ خود کہدیجیے: اللہ ہی رازق ہے۔

۲۔ مَنۡ یَّرۡزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ: آسمانوں اور زمین سے کون رزق دیتا ہے؟ اس سے معلوم ہوا کہ اہل ارض کو رزق دینے میں تمام آسمانوں کا عمل دخل ہے۔ یعنی کل کائنات پر حاکم نظام کو دخل ہے۔ چنانچہ اہل ارض کے لیے ارزاق کی فراہمی میں زمین سے آسمانوں کا عمل زیادہ مؤثر ہے۔

واضح رہے مشرکین اپنے معبودوں کو رازق سمجھتے تھے۔ اس عنوان سے کہ یہ معبود اللہ کی بارگاہ میں سفارش کرتے ہیں۔ ان کی سفارش پر ہمیں رزق ملتا ہے۔ مشرکین مانتے تھے کہ رازق خود اللہ تعالیٰ ہے۔ سابقہ آیت میں سفارش اور شفاعت کی نفی فرمائی۔ جب ان معبودوں کی سفارش کی نفی ہو گئی تو رازق صرف اللہ تعالیٰ ہی رہ جاتا ہے۔

۳۔ وَ اِنَّاۤ اَوۡ اِیَّاکُمۡ لَعَلٰی ہُدًی اَوۡ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ: واضح دلیل پیش کرنے کے بعد رسول اللہؐ کی زبان سے فرماتا ہے: ہمارا اور تمہارا موقف باہم متضاد ہیں۔ یہ دونوں صحیح نہیں ہو سکتے اور دونوں باطل بھی نہیں ہو سکتے۔ رازق اللہ ہے یا تمہارے معبود، یہ دونوں نظریے باطل نہیں ہو سکتے۔

مشرکین کا نظریہ باطل ہونے پر دلیل موجود ہے کہ خود مشرکین اللہ کو خالق حقیقی مانتے ہیں پس انہیں اللہ کو رازق بھی ماننا پڑے گا چونکہ رزق دینا بھی تخلیق ہے۔

دعوت فکر کا ایک انمول طریقہ یہ ہے کہ مدمقابل کی سطح پر اُتر آئیں کہ ہم دونوں میں ایک ہدایت پر یا گمراہی میں ہے۔ سوچو! ہم دونوں میں سے کون ہدایت پر اور کون گمراہی میں ہو سکتا ہے؟ کس کی دلیل منطقی ہے اور کون اندھی تقلید پر ہے؟ کس کے موقف پر کوئی سند ہے اور کون سا موقف بے سند ہے؟

اہم نکات

۱۔ بندگی رَب کی ہوتی ہے۔ رَب وہ ہے جو رازق ہے۔

۲۔ ہمیں روزی ملنے میں تمام آسمان موثر ہیں: مِّنَ السَّمٰوٰتِ۔۔۔۔

۳۔ دلیل قائم کرنے کے لیے مدمقابل کی سطح پر آنا مؤثر ہے۔


آیت 24