یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذۡکُرُوا اللّٰہَ ذِکۡرًا کَثِیۡرًا﴿ۙ۴۱﴾

۴۱۔ اے ایمان والو! اللہ کو بہت کثرت سے یاد کیا کرو۔

41۔ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: من اعطی لساناً ذاکرا فقد اعطی خیر الدنیا و الآخرۃ ۔ (الکافی 2 :498) جس کو ذکر خدا کرنے والی زبان عنایت ہوئی، اس کو دنیا و آخرت کی بھلائی مل گئی۔ ذکر ہی وہ واحد عبادت ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں متعدد جگہوں پر کَثِیۡرًا کا لفظ استعمال کیا ہے۔ احادیث میں آیا ہے کہ ذکر کے لیے کوئی حد متعین نہیں ہے۔

وَّ سَبِّحُوۡہُ بُکۡرَۃً وَّ اَصِیۡلًا﴿۴۲﴾

۴۲۔ اور صبح و شام اس کی تسبیح کیا کرو۔

ہُوَ الَّذِیۡ یُصَلِّیۡ عَلَیۡکُمۡ وَ مَلٰٓئِکَتُہٗ لِیُخۡرِجَکُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ؕ وَ کَانَ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَحِیۡمًا﴿۴۳﴾

۴۳۔ وہی تم پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی (دعا کرتے ہیں) تاکہ تمہیں تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکال لائے اور وہ مومنوں کے بارے میں بڑا مہربان ہے۔

43۔ صلوٰۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہو تو رحمت، فرشتوں کی طرف ہو تو استغفار اور لوگوں کی طرف ہو تو دعا کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔

تَحِیَّتُہُمۡ یَوۡمَ یَلۡقَوۡنَہٗ سَلٰمٌ ۖۚ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ اَجۡرًا کَرِیۡمًا﴿۴۴﴾

۴۴۔ جس روز وہ اس سے ملیں گے ان کی تحیت سلام ہو گی اور اللہ نے ان کے لیے باعزت اجر مہیا کر رکھا ہے۔

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ﴿ۙ۴۵﴾

۴۵۔ اے نبی! ہم نے آپ کو گواہ اور بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے،

45۔ شَاہِدًا : روز قیامت رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اعمال امت کے گواہ کے طور پر حاضر ہوں گے۔

مُبَشِّرًا : مومنین کو نجات اور جنت کی بشارت دینے والے ہیں۔

نَذِیۡرًا : منکرین کے لیے غضب الہٰی کی تنبیہ کرنے والے ہیں۔

وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذۡنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیۡرًا﴿۴۶﴾

۴۶۔ اور اس (اللہ) کے اذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور روشن چراغ بنا کر۔

46۔ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذۡنِہٖ : اللہ کی طرف جو دعوت رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دے رہے ہیں اس کے پیچھے اذن خدا ہونے کی وجہ سے یہ خود اللہ کی دعوت ہے۔

سِرَاجًا مُّنِیۡرًا : اندھیروں میں ایسا چراغ ہیں جو ہر ایک کی دست رسی میں ہے۔

وَ بَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ بِاَنَّ لَہُمۡ مِّنَ اللّٰہِ فَضۡلًا کَبِیۡرًا﴿۴۷﴾

۴۷۔ اور مومنین کو یہ بشارت دیجئے کہ ان کے لیے اللہ کی طرف سے بڑا فضل ہو گا۔

47۔ فضل و کرم اس ثواب کے علاوہ ہے جو عمل کے مقابلے میں ملتا ہے۔ اس فضل و کرم کا ذکر مطلق ہوا ہے، لہٰذا دنیا اور آخرت دونوں شامل ہیں۔

وَ لَا تُطِعِ الۡکٰفِرِیۡنَ وَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ وَ دَعۡ اَذٰىہُمۡ وَ تَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیۡلًا﴿۴۸﴾

۴۸۔ اور آپ کافروں اور منافقوں کی باتوں میں نہ آئیں اور ان کی اذیت رسانی پر توجہ نہ دیا کریں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں اور ضمانت کے لیے اللہ کافی ہے۔

48۔ دَعۡ اَذٰىہُمۡ وَ تَوَکَّلۡ : یعنی مشرکین اور منافقین کی طرف سے آپ کو جو اذیت پہنچ رہی ہے تو یہ مسئلہ اللہ پر چھوڑ دیجیے۔ اس میں فتح و نصرت کی ایک نوید ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نَکَحۡتُمُ الۡمُؤۡمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقۡتُمُوۡہُنَّ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَمَسُّوۡہُنَّ فَمَا لَکُمۡ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ عِدَّۃٍ تَعۡتَدُّوۡنَہَا ۚ فَمَتِّعُوۡہُنَّ وَ سَرِّحُوۡہُنَّ سَرَاحًا جَمِیۡلًا﴿۴۹﴾

۴۹۔ اے مومنو! جب تم مومنات سے نکاح کرو اور پھر ہاتھ لگانے سے پہلے انہیں طلاق دے دو تو تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ انہیں عدت میں بٹھاؤ، لہٰذا انہیں کچھ مال دو اور شائستہ انداز میں انہیں رخصت کرو۔

49۔ صرف عقد نکاح ہوا ہو اور ہمبستری سے پہلے طلاق ہو گئی ہو تو عدت نہیں ہے۔ فَمَتِّعُوۡہُنَّ ”ان کو کچھ مال دو“ یہ اس صورت میں ہے جب عقد نکاح کے موقع پر مہر مقرر نہ ہوا ہو اور اگر نکاح کے موقع پر مہر کا تقرر ہو گیا ہو تو اس کا حکم سورہ بقرہ کی آیت 237 میں بیان ہو چکا کہ نصف مہر دینا ہو گا۔

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَحۡلَلۡنَا لَکَ اَزۡوَاجَکَ الّٰتِیۡۤ اٰتَیۡتَ اُجُوۡرَہُنَّ وَ مَا مَلَکَتۡ یَمِیۡنُکَ مِمَّاۤ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلَیۡکَ وَ بَنٰتِ عَمِّکَ وَ بَنٰتِ عَمّٰتِکَ وَ بَنٰتِ خَالِکَ وَ بَنٰتِ خٰلٰتِکَ الّٰتِیۡ ہَاجَرۡنَ مَعَکَ ۫ وَ امۡرَاَۃً مُّؤۡمِنَۃً اِنۡ وَّہَبَتۡ نَفۡسَہَا لِلنَّبِیِّ اِنۡ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنۡ یَّسۡتَنۡکِحَہَا ٭ خَالِصَۃً لَّکَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ؕ قَدۡ عَلِمۡنَا مَا فَرَضۡنَا عَلَیۡہِمۡ فِیۡۤ اَزۡوَاجِہِمۡ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُمۡ لِکَیۡلَا یَکُوۡنَ عَلَیۡکَ حَرَجٌ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۵۰﴾

۵۰۔ اے نبی! ہم نے آپ کے لیے آپ کی وہ بیویاں حلال کی ہیں جن کے مہر آپ نے دے دیے ہیں اور وہ لونڈیاں بھی جو اللہ نے (بغیر جنگ کے) آپ کو عطا کی ہیں نیز آپ کے چچا کی بیٹیاں اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں اور آپ کے ماموں کی بیٹیاں اور آپ کی خالاؤں کی بیٹیاں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے (سب حلال ہیں) اور وہ مومنہ عورت جو اپنے آپ کو نبی کے لیے ہبہ کرے اور اگر نبی بھی اس سے نکاح کرنا چاہیں، (یہ اجازت) صرف آپ کے لیے ہے مومنوں کے لیے نہیں، ہمیں معلوم ہے کہ ہم نے مومنوں پر ان کی بیویوں اور کنیزوں کے بارے میں کیا (حق مہر) معین کیا ہے (آپ کو یہ رعایت اس لیے حاصل ہے) تاکہ آپ پر کسی قسم کا مضائقہ نہ ہو اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، مہربان ہے۔

50۔ اس اعتراض کہ مومنین کے لیے تو صرف چار بیویوں کی اجازت ہے اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود چار سے زائد بیویاں رکھ رہے ہیں، کا جواب یہ ہے کہ اولاً: جس اللہ نے عام مومنین کے لیے چار کی حد بندی کی ہے، اسی اللہ نے اپنے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لیے یہ حد بندی نہیں رکھی۔ ثانیاً: رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چونکہ مقام عصمت پر فائز ہیں اس لیے دوسرے بشری تقاضوں کی حد بندی یہاں رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لیے نہیں ہے۔

یہ بھی رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خصوصیات میں سے ایک ہے کہ کوئی خاتون اپنے آپ کو رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لیے بلا مہر ہبہ کر دے اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی قبول کریں تو وہ عورت آپ کی بیوی بن جائے گی۔

لِکَیۡلَا یَکُوۡنَ عَلَیۡکَ حَرَجٌ : اس جملے کا مفہوم یہ ہے: ہم نے آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مومنین سے زیادہ ازواج کی اجازت اس لیے دی ہے کہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کوئی تنگی نہ ہو۔ یعنی رسالت کی ذمہ داریوں کی تکمیل میں کوئی تنگی نہ ہو۔ ان ازواج سے آپ کو دو سہولتیں میسر آئیں۔ اول یہ کہ ان ازواج کے ذریعے مختلف قبائل کی ہمدردیاں حاصل فرمائیں اور بہت سے خاندانی اور قبائلی عداوتیں ختم ہو گئیں۔ دوم یہ کہ ان ازواج کے ذریعے بہت سی نسوانی تربیت جو دوسری صورت میں نہیں ہو سکتی تھی، آسان ہو گئی۔ چنانچہ ازواج کے ذریعے تعلیمات اسلامی کا ایک قابل توجہ حصہ نسوانی معاشرے میں آسانی سے پہنچ گیا۔ اگر خواہشات کی بنیاد پر ہوتیں تو ان ازواج میں ایک کے سوا خواتین سن رسیدہ معمر نہ ہوتیں۔بعض ازواج سے تو صرف نکاح ہوا اور بس۔