رسولؐ کی ازواج چار سے زیادہ کیوں؟


یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَحۡلَلۡنَا لَکَ اَزۡوَاجَکَ الّٰتِیۡۤ اٰتَیۡتَ اُجُوۡرَہُنَّ وَ مَا مَلَکَتۡ یَمِیۡنُکَ مِمَّاۤ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلَیۡکَ وَ بَنٰتِ عَمِّکَ وَ بَنٰتِ عَمّٰتِکَ وَ بَنٰتِ خَالِکَ وَ بَنٰتِ خٰلٰتِکَ الّٰتِیۡ ہَاجَرۡنَ مَعَکَ ۫ وَ امۡرَاَۃً مُّؤۡمِنَۃً اِنۡ وَّہَبَتۡ نَفۡسَہَا لِلنَّبِیِّ اِنۡ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنۡ یَّسۡتَنۡکِحَہَا ٭ خَالِصَۃً لَّکَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ؕ قَدۡ عَلِمۡنَا مَا فَرَضۡنَا عَلَیۡہِمۡ فِیۡۤ اَزۡوَاجِہِمۡ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُمۡ لِکَیۡلَا یَکُوۡنَ عَلَیۡکَ حَرَجٌ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۵۰﴾

۵۰۔ اے نبی! ہم نے آپ کے لیے آپ کی وہ بیویاں حلال کی ہیں جن کے مہر آپ نے دے دیے ہیں اور وہ لونڈیاں بھی جو اللہ نے (بغیر جنگ کے) آپ کو عطا کی ہیں نیز آپ کے چچا کی بیٹیاں اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں اور آپ کے ماموں کی بیٹیاں اور آپ کی خالاؤں کی بیٹیاں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے (سب حلال ہیں) اور وہ مومنہ عورت جو اپنے آپ کو نبی کے لیے ہبہ کرے اور اگر نبی بھی اس سے نکاح کرنا چاہیں، (یہ اجازت) صرف آپ کے لیے ہے مومنوں کے لیے نہیں، ہمیں معلوم ہے کہ ہم نے مومنوں پر ان کی بیویوں اور کنیزوں کے بارے میں کیا (حق مہر) معین کیا ہے (آپ کو یہ رعایت اس لیے حاصل ہے) تاکہ آپ پر کسی قسم کا مضائقہ نہ ہو اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، مہربان ہے۔

50۔ اس اعتراض کہ مومنین کے لیے تو صرف چار بیویوں کی اجازت ہے اور رسول ﷺ خود چار سے زائد بیویاں رکھ رہے ہیں، کا جواب یہ ہے کہ اولاً: جس اللہ نے عام مومنین کے لیے چار کی حد بندی کی ہے، اسی اللہ نے اپنے رسول ﷺ کے لیے یہ حد بندی نہیں رکھی۔ ثانیاً: رسول اللہ ﷺ چونکہ مقام عصمت پر فائز ہیں اس لیے دوسرے بشری تقاضوں کی حد بندی یہاں رسول اللہ ﷺ کے لیے نہیں ہے۔

یہ بھی رسول اللہ ﷺ کی خصوصیات میں سے ایک ہے کہ کوئی خاتون اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے لیے بلا مہر ہبہ کر دے اور رسول ﷺ بھی قبول کریں تو وہ عورت آپ کی بیوی بن جائے گی۔

لِکَیۡلَا یَکُوۡنَ عَلَیۡکَ حَرَجٌ : اس جملے کا مفہوم یہ ہے: ہم نے آپ ﷺ کو مومنین سے زیادہ ازواج کی اجازت اس لیے دی ہے کہ آپ ﷺ کو کوئی تنگی نہ ہو۔ یعنی رسالت کی ذمہ داریوں کی تکمیل میں کوئی تنگی نہ ہو۔ ان ازواج سے آپ کو دو سہولتیں میسر آئیں۔ اول یہ کہ ان ازواج کے ذریعے مختلف قبائل کی ہمدردیاں حاصل فرمائیں اور بہت سے خاندانی اور قبائلی عداوتیں ختم ہو گئیں۔ دوم یہ کہ ان ازواج کے ذریعے بہت سی نسوانی تربیت جو دوسری صورت میں نہیں ہو سکتی تھی، آسان ہو گئی۔ چنانچہ ازواج کے ذریعے تعلیمات اسلامی کا ایک قابل توجہ حصہ نسوانی معاشرے میں آسانی سے پہنچ گیا۔ اگر خواہشات کی بنیاد پر ہوتیں تو ان ازواج میں ایک کے سوا خواتین سن رسیدہ معمر نہ ہوتیں۔بعض ازواج سے تو صرف نکاح ہوا اور بس۔