آیات 45 - 46
 

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ﴿ۙ۴۵﴾

۴۵۔ اے نبی! ہم نے آپ کو گواہ اور بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے،

وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذۡنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیۡرًا﴿۴۶﴾

۴۶۔ اور اس (اللہ) کے اذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور روشن چراغ بنا کر۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ شَاہِدًا: ہر رسول اپنی امت کے اعمال کا شاہد اور گواہ ہے اور رسول خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان تمام گواہوں پر گواہ ہیں:

فَکَیۡفَ اِذَا جِئۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍۭ بِشَہِیۡدٍ وَّ جِئۡنَا بِکَ عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ شَہِیۡدًا (۴ نسآء: ۴۱)

پس (اس دن) کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) آپ کو ان لوگوں پربطور گواہ پیش کریں گے۔

پس ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام امتوں کے گواہوں کے گواہ ہوں گے اور اپنی امت کے اعمال پر گواہ ہیں۔ اپنی حیات مبارکہ میں لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کیا سلوک کیا، آپ شاہد ہیں:

کن لوگوں نے آپؐ کی دعوت پر لبیک کہی۔

کن لوگوں نے آپؐ کی دعوت کو رد کیا۔

کن لوگوں نے آپؐ کے بعد آپؐ کی شریعت میں تبدیلیاں کیں۔

حدیث حوض میں آیا ہے:

لیردن علیّ اناس من اصحابی الحوض حتی اذا رأیتہم و عرفتہم اختلجوا دونی فاقول یا رب اصیحابی اصیحابی فیقال لی: انک لا تدری ما اھدثوا بعدک فاقول: تبا و سحقا لمن احدث بعدی۔

میرے اصحاب میں سے کچھ لوگ حوض پر میرے پاس پہنچ جائیں گے۔ جب میں انہیں دیکھ لوں گا اور پہچان لوں گا۔ وہ میرے سامنے جھگڑنے لگیں گے تو میں کہوں گا اے رب میرے اصحاب، میرے اصحاب۔ جواب میں کہا جائے گا: آپ کو کیا معلوم ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا تبدیلیاں کی ہیں۔ اس پر میں کہوں گا: ہلاکت و تباہی ہو ان لوگوں کے لیے جنہوں نے میرے بعد تبدیلیاں کی ہیں۔

۲۔ وَّ مُبَشِّرًا: آپؐ ان لوگوں کو بشارت دیں گے جن لوگوں نے آپؐ کی دعوت پر لبیک کہی۔ ایمان لائے۔ آپؐ کے ساتھ جہاد کیا۔ قربانیاں دیں آپؐ کے بعد آپؐ کی شریعت کا تحفظ کیا اور تبدیلیاں لانے والوں کا مقابلہ کیا:

وَ یُبَشِّرَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ اَجۡرًا حَسَنًا (۱۸ کہف: ۲)

اور ان مومنین کو بشارت دے جو نیک عمل کرتے ہیں کہ ان کے لیے بہتر اجر ہے۔

۳۔ وَّ نَذِیۡرًا: انسان خطرات میں گھرا رہتا ہے۔ اس کے داخلی اور بیرونی دشمن بے تحاشا ہیں۔ اس لیے انسانی سعادت و کامیابی میں تنبیہ کا بنیادی کردار ہے۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

مَنْ حَذَّرَکَ کَمَنْ بَشَّرَکَ۔ (نہج البلاغۃ۔ حکمت:۵۹)

جو (برائیوں سے) خوف دلائے وہ تمہارے لیے مژدہ سنانے والے کے مانند ہے۔

قرآن مجید میں اسی لیے لوگوں کے مقام نذارت کو زیادہ اہتمام کے ساتھ بیان فرمایا ہے:

اِنۡ اَنۡتَ اِلَّا نَذِیۡرٌ (۳۵ فاطر: ۲۳)

آپ تو صرف تنبیہ کرنے والے ہیں۔

وَ اِنۡ مِّنۡ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ (۳۵ فاطر: ۲۴)

اور کوئی امت ایسی نہیں گزری جس میں کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا ہو۔

جب جہنمیوں کو جہنم کی طرف لے جایا جائے گا تو وہاں بھی ان سے پوچھا جائے گا: اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ نَذِیۡرٌ۔ (۶۷ ملک: ۸) کیا تمہارے پاس کوئی تنبیہ کرنے والا نہ آیا تھا؟ کیونکہ کسی تنبیہ پر توجہ دی جاتی تو آج جہنم جانے کی نوبت نہ آتی۔

۴۔ وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ: غیر اللہ کی بندگی کو چھوڑ کر اللہ کی بندگی کی طرف دعوت دینے والے کی اس دعوت میں اپنی ذات، اپنے مفاد کا شائبہ تک نہیں ہے۔ صرف اور صرف اللہ کی طرف دعوت دینے والا ہے۔

۵۔ بِاِذۡنِہٖ: یہ دعوت باذن خدا ہو گی۔ اذن خدا سے ممکن ہے اشارہ ہو اس بات کی طرف کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس جس بات کی دعوت دیں گے وہ اپنی طرف سے نہیں باذن خدا ہے۔ بعض مفسرین نے کہا ہے: اذن خدا سے اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ دعوت الی اللہ نہایت مشکل کام ہے۔ اس کام کی انجام دہی کے لیے اذن خدا یعنی مدد خدا لازم ہے۔ بعض دیگر مفسرین اس کی اس طرح تشریح کرتے ہیں کہ بشارت و نذارت کے لیے اذن خدا لازم نہیں ہے جب کہ اللہ کی بارگاہ میں بلانا ہے تو اذن خدا لازم ہے۔ یہ تفسیر قابل تائید نہیں ہے چونکہ بِاِذۡنِہٖ کا تعلق مذکورہ تمام فرائض کے ساتھ ہے، صرف دَاعِیًا کے ساتھ نہیں۔ چنانچہ سِرَاجًا مُّنِیۡرًا کا تعلق صرف دَاعِیًا کے ساتھ نہیں ہے۔

۶۔ سِرَاجًا مُّنِیۡرًا: روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے۔ ظلمت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرے ہوئی جاہل قوم کو سعادت دارین کا راستہ دکھانے کے لیے جس روشنی کی ضرورت ہے وہ روشنی اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہے۔ روشن چراغ کی گمراہ اور ہدایت یافتہ دونوں کے لیے ضرورت ہے۔ گمراہ کو راستہ دکھانے اور ہدایت یافتہ کو راستے کے خطرات سے بچانے کے لیے۔ ممکن ہے ایک شخص صحیح منزل کی سمت رواں دواں ہو مگر روشنی نہ ہونے کی وجہ سے کسی کھائی میں گر جائے۔ چنانچہ ہمیں بہت سے نظریاتی مسلمان کھائی میں گرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ اس سراج منیر سے کماحقہ استفادہ نہ کرنا ہے۔

اہم نکات

۱۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے اعمال پر گواہ ہیں۔

۲۔ بشارت اور نذارت دونوں کا تعلق انسانی اعمال سے ہے۔

۳۔ روشن چراغ سے چشم بینا فائدہ اٹھا سکتی ہے۔


آیات 45 - 46