آیت 44
 

تَحِیَّتُہُمۡ یَوۡمَ یَلۡقَوۡنَہٗ سَلٰمٌ ۖۚ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ اَجۡرًا کَرِیۡمًا﴿۴۴﴾

۴۴۔ جس روز وہ اس سے ملیں گے ان کی تحیت سلام ہو گی اور اللہ نے ان کے لیے باعزت اجر مہیا کر رکھا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ تَحِیَّتُہُمۡ یَوۡمَ یَلۡقَوۡنَہٗ سَلٰمٌ: یوم لقاء کی تحیت سلام ہو گی۔ اللہ سے ملاقات کے دن کا آغاز سلام سے ہو گا۔ یوم لقاء ممکن ہے موت کا وقت ہو۔ موت کے وقت سلام سے استقبال ہو گا۔ چنانچہ فرمایا:

الَّذِیۡنَ تَتَوَفّٰىہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ طَیِّبِیۡنَ ۙ یَقُوۡلُوۡنَ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمُ ۙ ادۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ (۱۶ نحل: ۳۲)

جن کی روحیں فرشتے پاکیزہ حالت میں قبض کرتے ہیں (اور انہیں) کہتے ہیں: تم پر سلام ہو! اپنے (نیک) اعمال کی جزا میں جنت میں داخل ہو جاؤ۔

یوم لقا اگر روز حشر برائے حساب ہے تو بھی وہاں اعراف کی بلندیوں سے سلام کی آواز آئے گی:

نَادَوۡا اَصۡحٰبَ الۡجَنَّۃِ اَنۡ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ۔ ( ۷ اعراف: ۴۶)

اور اہل جنت سے پکار کر کہیں گے: تم پر سلامتی ہو۔

یوم لقاء سے مراد لوگوں کے داخل جنت ہونے کا وقت ہے تو بھی سلام ہے:

وَ قَالَ لَہُمۡ خَزَنَتُہَا سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ طِبۡتُمۡ فَادۡخُلُوۡہَا خٰلِدِیۡنَ۔۔۔۔ (۳۹ زمر: ۷۳)

اور جنت کے منتظمین ان سے کہیں گے: تم پر سلام ہو تم بہت خوب رہے، اب ہمیشہ کے لیے اس میں داخل ہو جاؤ۔

یوم لقاء اگر جنت ہے تو یہاں بھی سلام سلام ہو گا:

لَا یَسۡمَعُوۡنَ فِیۡہَا لَغۡوًا وَّ لَا تَاۡثِیۡمًا اِلَّا قِیۡلًا سَلٰمًا سَلٰمًا (۵۶ واقعہ: ۲۵۔۲۶)

وہاں وہ نہ بیہودہ کلام سنیں گے اور نہ ہی گناہ کی بات۔ ہاں! سلام سلام کہنا ہو گا۔

غرض اللہ سے تعالیٰ ملاقات کے تمام مراحل میں سلام و سلام ہو گا۔ سلامتی کے علاوہ کوئی دکھ عذاب نہ ہو گا۔

۲۔ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ اَجۡرًا کَرِیۡمًا: مومنوں کے لیے اجر و ثواب مہیا ہو گا۔ وہ کریم ہو گا۔ باعزت، بااحترام اجر ملے گا۔ عزت و احترام کی وجہ سے اجر و ثواب زیادہ پرکشش بن جاتا ہے۔ واضح رہے کریم یہاں عزیز کے معنوںمیں ہے۔ جیسے فرمایا:

وَ مَنۡ یُّہِنِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ مُّکۡرِمٍ۔۔۔ (۲۲ حج: ۱۸)

جسے اللہ خوار کرے اسے عزت دینے والا کوئی نہیں۔

اہم نکات

۱۔ مومن اللہ کی بارگاہ میں سلام کی تحیت کے ساتھ جائے گا۔

۲۔ مومن کو اجر و ثواب عزت و احترام کے ساتھ ملے گا۔


آیت 44